Unlock the timeless wisdom of Syed Abul Ala Maududi's, now powered by cutting-edge AI.

مولانا مودودیؒ کے نزدیک شریعت کی بالادستی کیوں ضروری ہے؟

مولانا مودودیؒ کے نزدیک شریعت کی بالادستی کیوں ضروری ہے؟

اسلامی تاریخ میں ایسے مفکرین کم ہی گزرے ہیں جنہوں نے دین کو نہ صرف فکری انداز میں پیش کیا بلکہ عملی زندگی کے ساتھ بھی جوڑ کر دکھایا۔ انہی شخصیات میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام نمایاں ہے۔ ان کا سب سے بڑا پیغام یہ تھا کہ شریعت کی بالادستی ہی انسانیت کی فلاح، معاشرتی عدل اور انفرادی آزادی کی ضمانت ہے۔ ان کے نزدیک دین محض چند عبادات یا اخلاقی نصائح تک محدود نہیں بلکہ مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔

مولانا مودودیؒ نے واضح کیا کہ اگر شریعت کو زندگی کے اصل مرکز کی حیثیت نہ دی جائے تو معاشرہ اخلاقی انحطاط، ناانصافی اور ظلم و جبر کا شکار ہو جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک شریعت کی بالادستی کیوں ضروری ہے۔

شریعت: مکمل ضابطۂ حیات

مولانا مودودیؒ کے مطابق اسلام کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ صرف روحانی نظام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ شریعت انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں کے لیے اصول فراہم کرتی ہے۔

  • انفرادی سطح پر شریعت عبادات، اخلاقیات اور کردار سازی پر زور دیتی ہے۔

  • اجتماعی سطح پر یہ سیاست، معیشت، عدل اور معاشرتی تعلقات کے اصول واضح کرتی ہے۔

مودودیؒ کے نزدیک اگر معاشرہ شریعت کے بجائے انسانی خواہشات یا مغربی قوانین پر قائم ہو تو وہاں ناانصافی اور استحصال بڑھتا ہے۔ اس لیے شریعت کی بالادستی کو انہوں نے لازمی قرار دیا۔

انسانی قوانین کی کمزوری

مولانا مودودیؒ نے بارہا اس بات پر روشنی ڈالی کہ انسانی دماغ محدود ہے۔ انسان اپنے ذاتی مفاد، وقتی خواہشات اور طبقاتی تعصبات کی بنیاد پر قوانین بناتا ہے۔ ایسے قوانین بظاہر ترقی لاتے ہیں لیکن اصل میں معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔

  • سرمایہ دارانہ نظام میں دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے۔

  • جمہوری نظام میں اکثریت کے دباؤ تلے کمزور طبقہ مزید دب جاتا ہے۔

  • لادین قوانین میں اخلاقی بنیاد کمزور پڑ جاتی ہے۔

اس کے برعکس شریعت الٰہی علم پر مبنی ہے، جو ہر دور اور ہر قوم کے لیے عدل و انصاف کا ضامن ہے۔ اس لیے مودودیؒ کے نزدیک شریعت کو بالا دست رکھنا ہی حقیقی انصاف کی ضمانت ہے۔

عدل و مساوات کا قیام

مولانا مودودیؒ کے مطابق شریعت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عدل قائم کرتی ہے۔ قرآن میں بھی بار بار عدل کو اسلام کا بنیادی مقصد بتایا گیا ہے۔

  • اسلام میں حکمران اور عوام دونوں ایک ہی قانون کے تابع ہیں۔

  • دولت کی منصفانہ تقسیم کے اصول زکوٰۃ اور سود کی حرمت کے ذریعے طے کیے گئے ہیں۔

  • انسانی حقوق کو واضح طور پر بیان کر کے ان کی حفاظت کی گئی ہے۔

ان کے نزدیک اگر شریعت کی بالادستی قائم نہ ہو تو حکمران اپنی مرضی کے قوانین بنا کر عوام پر ظلم ڈھاتے رہیں گے۔ اس لیے شریعت کی عملداری ہی مساوات کی حقیقی ضامن ہے۔

اخلاقی نظام کی حفاظت

مولانا مودودیؒ نے یہ نکتہ بھی پیش کیا کہ شریعت کا مقصد محض عدالتی قوانین وضع کرنا نہیں بلکہ ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں اخلاقی اقدار کو عملی شکل دی جائے۔

  • حلال و حرام کی تفریق انسان کو پاکیزہ زندگی گزارنے پر آمادہ کرتی ہے۔

  • پردہ، حیا اور عفت کے اصول خاندان کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاتے ہیں۔

  • جرائم کے قوانین صرف سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ برائی کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

ان کے نزدیک جب تک شریعت نافذ نہ ہو، معاشرتی اخلاقیات صرف ایک خواب رہتی ہیں۔

روحانی و دنیاوی توازن

بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ شریعت کا مقصد صرف آخرت کی تیاری ہے، لیکن مولانا مودودیؒ نے اس تصور کو محدود قرار دیا۔ ان کے مطابق شریعت انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی دیتی ہے۔

  • عبادات انسان کو اللہ سے جوڑتی ہیں۔

  • معاشرتی قوانین انسان کو دوسرے انسانوں کے ساتھ عدل و انصاف کا پابند بناتے ہیں۔

  • معاشی اصول انسان کو لالچ اور استحصال سے بچاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک شریعت کی بالادستی انسان کو ہمہ جہت کامیابی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

اسلامی ریاست اور شریعت کی عملداری

مولانا مودودیؒ کے نزدیک شریعت کی بالادستی صرف انفرادی سطح پر ممکن نہیں بلکہ اسے ریاستی سطح پر بھی نافذ کرنا ضروری ہے۔

  • اسلامی ریاست کا مقصد محض حکمرانی نہیں بلکہ اللہ کی حاکمیت قائم کرنا ہے۔

  • حکمران عوام پر اپنی نہیں بلکہ خدا کی شریعت نافذ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

  • عدلیہ اور انتظامیہ دونوں کو شریعت کے اصولوں کے تحت کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر ریاست شریعت کی بالادستی کو تسلیم نہ کرے تو وہ دراصل ایک لادین ریاست ہے جو انسانوں کو حقیقی آزادی نہیں دے سکتی۔

مغربی تہذیب اور شریعت کا تقابل

مولانا مودودیؒ مغربی تہذیب کے ناقد تھے۔ ان کے مطابق مغرب نے مادی ترقی تو حاصل کی لیکن روحانی اور اخلاقی قدروں کو پامال کر دیا۔

  • مغربی قوانین فرد کو آزادی تو دیتے ہیں لیکن اخلاقی حدود مٹا دیتے ہیں۔

  • سیکولر نظام مذہب کو نجی زندگی تک محدود کر دیتا ہے۔

  • نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاندان ٹوٹتے ہیں اور معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے۔

اس کے برعکس شریعت فرد کو آزادی کے ساتھ ذمہ داری بھی دیتی ہے، جس سے توازن اور عدل پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودودیؒ کے نزدیک شریعت کی بالادستی ناگزیر ہے۔

عوامی فلاح اور سماجی انصاف

مولانا مودودیؒ کا خیال تھا کہ شریعت عوامی فلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کی بنیاد انصاف، مساوات اور اخوت پر رکھی گئی ہے۔

  • زکوٰۃ، صدقات اور انفاق سے معاشرتی طبقاتی فرق کم ہوتا ہے۔

  • سود کی حرمت سے معاشی استحصال ختم ہوتا ہے۔

  • حدود و تعزیرات سے جرائم کی روک تھام ہوتی ہے۔

یہ سب اقدامات معاشرے کو ایک مضبوط اور خوشحال وحدت میں بدل دیتے ہیں۔

نتیجہ: شریعت کی بالادستی ایک ناگزیر ضرورت

مولانا مودودیؒ کے نزدیک شریعت کی بالادستی محض ایک نظریاتی یا فقہی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی فلاح کی بنیادی شرط ہے۔ ان کے مطابق اگر انسان اپنی زندگی اور معاشرے کو خدا کے دیے ہوئے قوانین کے مطابق نہ چلائے تو وہ ظلم، ناانصافی اور بگاڑ کا شکار ہو گا۔

شریعت کی بالادستی سے:

  • عدل و انصاف قائم ہوتا ہے۔

  • معاشرتی اخلاقیات محفوظ رہتی ہیں۔

  • معیشت استحصال سے پاک ہوتی ہے۔

  • ریاست حقیقی معنوں میں عوامی خدمت کا مرکز بنتی ہے۔

اسی لیے مولانا مودودیؒ نے بارہا کہا کہ اسلام کو صرف مسجد یا نجی زندگی تک محدود کرنا دراصل اس کے پیغام کو مسخ کرنا ہے۔ اسلام تبھی اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہو سکتا ہے جب شریعت کو زندگی کے تمام شعبوں پر بالادستی حاصل ہو۔

Explore More

:شیئر کریں

Syed Abul Ala Maududi (RA)

Related Articles

Explore Syed Abul Ala Maududi’s profound writings and insightful analyses shaping contemporary Islamic thought.