تعارف
برصغیر کی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے اپنے عہد کو متاثر کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی فکری رہنمائی فراہم کی۔ انہی میں ایک نام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا ہے۔
وہ ایک عالمِ دین، مفکر، مصلح اور ادیب تھے۔ سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو محض چند رسومات کے بجائے ایک ہمہ گیر سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام کے طور پر پیش کیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
مولانا مودودیؒ 25 ستمبر 1903ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں علمی ماحول نمایاں تھا۔
ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں جدید اور روایتی علوم کا مطالعہ کیا۔ کم عمری میں صحافت سے وابستہ ہوئے اور کئی اخبارات میں لکھنے لگے۔ اس وجہ سے جلد ہی فکری حلقوں میں پہچان بنا لی۔
علمی و فکری خدمات
اسلام کو بطور مکمل نظامِ زندگی
مولانا مودودی نے اسلام کو چند رسومات سے بڑھ کر ایک مکمل ضابطۂ حیات قرار دیا۔ ان کے مطابق اسلام انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور معاشی زندگی کا جامع خاکہ فراہم کرتا ہے۔
تحریری کارنامے
انہوں نے 120 سے زائد کتب لکھیں۔ سب سے مشہور تفہیم القرآن ہے جو عام فہم ترجمہ اور تفسیر ہے۔ اس کے علاوہ “اسلامی ریاست”، “الجہاد فی الاسلام” اور “اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی” بھی نمایاں تصانیف ہیں۔
سیاست اور قانون پر اثر
پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کروانے میں ان کی کوششوں کا بڑا کردار تھا۔ “قرار دادِ مقاصد” اور کئی اہم شقوں میں ان کے افکار جھلکتے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کی بنیاد
1941ء میں مولانا مودودی نے جماعتِ اسلامی قائم کی۔ مقصد ایک ایسی تحریک برپا کرنا تھا جو قرآن و سنت کی روشنی میں معاشرتی اصلاح کرے اور اسلامی نظامِ حکومت قائم کرے۔
یہ جماعت قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد دونوں ادوار میں سیاسی و سماجی منظرنامے پر اثرانداز ہوئی۔
جدوجہد برائے پاکستان
قیام سے پہلے
مولانا مودودی نے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک بنانا کافی نہیں۔ اصل ضرورت اسلامی نظام کے قیام کی ہے۔
قیام کے بعد
پاکستان بننے کے بعد انہوں نے اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی۔ ان کی تحریک کے نتیجے میں کئی دفعات آئین کا حصہ بنیں جو آج بھی نافذ ہیں۔
فکری ورثہ
نوجوانوں پر اثرات
انہوں نے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ اسلام صرف مسجد اور مدرسے تک محدود نہیں۔ بلکہ یہ سیاست، معیشت اور معاشرت سب پر محیط ہے۔
عالمی اثرات
ان کی فکر برصغیر تک محدود نہ رہی۔ مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور امریکہ تک پھیلی۔ اخوان المسلمون اور دیگر تحریکوں نے ان کے نظریات سے رہنمائی لی۔
تنقید اور اختلافات
بڑی شخصیات کی طرح مولانا مودودی کو بھی تنقید کا سامنا ہوا۔ بعض علماء نے ان کے نظریات سے اختلاف کیا۔ سیاسی میدان میں بھی جماعتِ اسلامی کی حکمت عملی پر آراء مختلف رہیں۔
تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے اسلامی فکر کو نئی جہت دی اور عملی جدوجہد کی ایک مضبوط مثال قائم کی۔
نمایاں کارنامے
تفہیم القرآن
ان کی سب سے بڑی علمی خدمت تفہیم القرآن ہے۔ یہ تفسیر دنیا بھر میں لاکھوں افراد کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنی۔
آئین کے لیے جدوجہد
پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کرانے میں ان کا کردار بنیادی رہا۔
اسلامی تحریکوں پر اثر
دنیا کی کئی اسلامی تحریکیں آج بھی مولانا مودودی کو اپنا فکری رہنما مانتی ہیں۔
ذاتی زندگی اور آخری ایام
مولانا مودودی نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ علمی اور تحریکی جدوجہد میں گزارا۔
1979ء میں طبیعت خراب ہونے پر وہ علاج کے لیے امریکہ گئے۔ وہیں 22 ستمبر کو انتقال ہوا۔ انہیں لاہور میں سپردِ خاک کیا گیا۔
نتیجہ
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سمجھایا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اسلام کو محض عبادات سے بڑھا کر ایک مکمل نظام کے طور پر پیش کیا۔
آج بھی ان کے افکار اور جدوجہد مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
FAQs
مولانا مودودی کب پیدا ہوئے؟
25 ستمبر 1903ء کو حیدرآباد دکن میں۔
مولانا مودودی کی مشہور کتاب کون سی ہے؟
سب سے مشہور کتاب تفہیم القرآن ہے۔
جماعتِ اسلامی کی بنیاد کب رکھی گئی؟
1941ء میں مولانا مودودی نے جماعت اسلامی قائم کی۔
مولانا مودودی کا انتقال کب ہوا؟
22 ستمبر 1979ء کو، اور تدفین لاہور میں ہوئی۔