فکرِ مودودیؒ کے مطابق
آزادیٔ اظہار جدید دنیا کا ایک اہم نعرہ ہے جس کے ذریعے فرد کو اپنی رائے بیان کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ مغربی معاشروں میں یہ آزادی اکثر لامحدود تصور کی جاتی ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر اس کے لیے کچھ اصول و ضوابط متعین کرتا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس موضوع پر گہری فکر پیش کی اور واضح کیا کہ اسلام آزادیٔ اظہار کو تسلیم کرتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ حدود کا تعین بھی ضروری سمجھتا ہے۔
اسلام میں آزادیٔ اظہار کا بنیادی تصور
قرآن و سنت کی روشنی میں
اسلام آزادیٔ اظہار کو فطری حق تسلیم کرتا ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا:
“وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ”
(سورہ بنی اسرائیل: 36)
ترجمہ: “اس بات کی پیروی نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں۔”
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہارِ رائے کی اجازت ہے، مگر اس کے لیے علم، عدل اور ذمہ داری بنیادی شرط ہے۔
اظہارِ رائے کی ذمہ داریاں
اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر فرد کو اظہارِ رائے کی اجازت ہے، لیکن یہ آزادی دوسروں کے حقوق کی پامالی کا ذریعہ نہیں بننی چاہیے۔ بہتان، فتنہ، اور بے بنیاد الزامات کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔
مولانا مودودیؒ کا نظریۂ آزادیٔ اظہار
مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کے تصور میں آزادیٔ اظہار کو ایک لازمی عنصر قرار دیا، مگر ساتھ ہی اس پر حدود کی وضاحت بھی کی۔
حق اور باطل میں فرق
مودودیؒ کے نزدیک آزادیٔ اظہار کا مقصد حق کی ترویج ہونا چاہیے، نہ کہ باطل کو فروغ دینا۔ اگر اظہارِ رائے معاشرے میں فتنہ و فساد کا سبب بنے، تو وہ قابلِ گرفت ہے۔
نبیوں کی دعوت اور اظہارِ رائے
مولانا کے مطابق انبیاء کرام علیہم السلام سب سے بڑے اظہارِ رائے کے علمبردار تھے۔ انھوں نے باطل معاشروں کے خلاف حق کی آواز بلند کی۔ اس لحاظ سے اظہارِ رائے ایک دینی فریضہ بن جاتا ہے، لیکن اس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہونی چاہیے۔
حدود کا تعین – فکرِ مودودیؒ کی روشنی میں
شریعت کی پابندی
مودودیؒ فرماتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں اظہارِ رائے کی آزادی اس وقت تک جائز ہے جب تک وہ اسلامی شریعت کی حدود کو پامال نہ کرے۔ اگر کوئی اظہار ایسا ہو جو قرآن و سنت کے خلاف ہو، تو وہ ناقابلِ قبول ہے۔
فحاشی اور گمراہی کی روک تھام
مولانا کے نزدیک آزادیٔ اظہار کے نام پر فحاشی، بے حیائی، اور دینی اقدار کی توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے اظہارِ خیال پر پابندی عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔
مغربی تصورِ آزادیٔ اظہار پر تنقید
مذہب دشمنی کے خلاف مؤقف
مولانا مودودیؒ نے مغرب میں رائج اظہارِ رائے کی لامحدود آزادی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصور اکثر مذہب، خاص طور پر اسلام، کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ مغرب میں آزادی کے نام پر توہینِ رسالت ﷺ یا قرآن کی بے حرمتی کو جائز سمجھا جاتا ہے، جو کہ اسلامی اقدار کے سراسر منافی ہے۔
اخلاقی زوال کا ذریعہ
مولانا کے نزدیک آزادی کی کوئی بھی شکل جو معاشرے کے اخلاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچائے، وہ قابلِ مذمت ہے۔ اظہارِ رائے کو ذمہ داری، اخلاق اور دیانت کے ساتھ جوڑنا لازم ہے۔
عملی مثالیں اور رہنمائی
اسلامی حکومت کا کردار
مودودیؒ نے واضح کیا کہ ایک اسلامی ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ اظہارِ رائے کی حوصلہ افزائی کرے، مگر ساتھ ہی ان حدود کی نگرانی بھی کرے جو اسلام نے متعین کی ہیں۔
اختلافِ رائے کی گنجائش
مولانا اختلافِ رائے کو اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں، بشرطیکہ یہ ادب، دلیل، اور اصلاح کی نیت سے ہو۔ ذاتیات پر حملے، تحقیر اور تضحیک اسلامی رویہ نہیں۔
آج کے دور میں اطلاق
سوشل میڈیا اور آزادیٔ اظہار
آج کا دور ڈیجیٹل اظہار کا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر شخص کو بولنے کا موقع ملا ہے، لیکن اس اظہار میں شریعت، اخلاقیات اور معاشرتی اقدار کا خیال رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔
نوجوانوں کی رہنمائی
نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ آزادیٔ اظہار کو ایک نعمت سمجھتے ہوئے اسے اصلاحِ معاشرہ اور دینی شعور بیدار کرنے کے لیے استعمال کرے، نہ کہ فتنہ و فساد یا ذاتی مفادات کے لیے۔
نتیجہ
اسلام میں آزادیٔ اظہار کو ایک مہذب، علم پر مبنی، اور ذمہ دارانہ عمل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ یہ آزادی ایک نعمت ہے، مگر اس کے ساتھ حدود اور قیود کا لحاظ رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اگر اظہارِ رائے قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر ہو، تو وہ نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ خیر ہے۔ لیکن اگر یہ حدود پھلانگ جائے تو معاشرتی فساد اور اخلاقی انحطاط کا باعث بنتی ہے۔
حوالہ اور مشورہ
مزید رہنمائی کے لیے آپ مولانا مودودیؒ کی تصانیف جیسے “اسلامی ریاست” اور “تفهیم القرآن” کا مطالعہ کریں۔ ان میں اظہارِ رائے، شریعت، اور اسلامی حکومت سے متعلق گہرے نکات موجود ہیں۔