اسلام ایک ایسا دین ہے جو عدل، مساوات اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں اقلیتوں کے حقوق کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کی تحریریں ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا صحیح تصور دیتی ہیں۔
مولانا مودودیؒ کا نظریہ اسلامی ریاست
مولانا مودودیؒ کے مطابق، اسلامی ریاست صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کا مقصد ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جو سب کے لیے انصاف پر مبنی ہو۔ اس میں اقلیتوں کو وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو مسلمانوں کو ملتے ہیں۔
مذہبی آزادی
اسلام اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے نزدیک، قرآن کا یہ حکم “دین میں کوئی زبردستی نہیں” صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ہے۔ اقلیتیں اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کر سکتی ہیں۔
جان و مال کا تحفظ
مولانا کی تحریریں بتاتی ہیں کہ اسلامی ریاست میں ہر شہری کا جان و مال محفوظ ہوتا ہے۔ غیر مسلموں کو بھی وہی تحفظ حاصل ہے جو مسلمانوں کو دیا جاتا ہے۔ ان کے حقوق کی خلاف ورزی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
تاریخ میں اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک
اسلامی تاریخ میں اقلیتوں کے ساتھ رواداری کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں یہودیوں اور عیسائیوں سے جو معاہدے کیے، وہ بین المذاہب امن کا ثبوت ہیں۔
میثاقِ مدینہ
میثاقِ مدینہ اسلامی معاشرے کی پہلی تحریری بنیاد تھی۔ مولانا مودودیؒ کے مطابق یہ معاہدہ اقلیتوں کو برابر کا شہری تسلیم کرتا ہے۔ وہ اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد تھے۔
اقلیتوں کی سماجی شمولیت
اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو معاشرتی ترقی میں شامل کیا جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے نزدیک، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے شعبوں میں ان کی شرکت ضروری ہے۔
جزیہ کا مطلب
جزیہ کو بعض لوگ غلط سمجھتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں کہ جیسے مسلمانوں پر زکٰوۃ ہے، ویسے ہی غیر مسلم شہری جزیہ ادا کرتے ہیں۔ یہ کوئی سزا نہیں بلکہ ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اس کے بدلے میں ریاست ان کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
آزادیِ اظہار اور مذہبی تقریبات
مولانا مودودیؒ کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کو اپنی تقریبات، عبادات اور خیالات کے اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔ اگر وہ ریاست کے خلاف کوئی سازش نہ کریں، تو ان پر پابندی کا کوئی جواز نہیں۔
مذہبی تعلیم کی آزادی
اقلیتیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کر سکتی ہیں۔ مولانا کے مطابق اسلامی ریاست کو ان کی مذہبی تعلیمات پر کوئی روک نہیں لگانی چاہیے۔
موجودہ دور میں مولانا کی فکر کی اہمیت
آج کے زمانے میں جب مذہبی تعصب بڑھ رہا ہے، مولانا مودودیؒ کی فکر بہت اہم ہو گئی ہے۔ ان کی سوچ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام سب کے لیے انصاف اور رواداری کا پیغام ہے۔
ہم آہنگی کی ضرورت
مذہبی ہم آہنگی آج کی بڑی ضرورت ہے۔ مولانا کی فکر ہمیں سکھاتی ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک صرف قانونی تقاضا نہیں، دینی فریضہ بھی ہے۔
نتیجہ
مولانا مودودیؒ نے اقلیتوں کے حقوق پر جو فکر دی، وہ قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق، اقلیتیں اسلامی ریاست میں مکمل تحفظ اور آزادی کی حقدار ہیں۔ انہیں برابری کا شہری تسلیم کیا جانا چاہیے۔ مذہب، جان و مال، تعلیم اور روزگار کے حقوق میں ان کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔