قرآن کا اصل پیغام انسانوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ اس دعوت کے لیے قرآن نے جو حکمت عملی اپنائی، وہ فطرت، عقل اور انصاف پر مبنی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس دعوتی حکمت عملی کو نہایت جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی تحریریں ہمیں بتاتی ہیں کہ قرآن کس طرح انسان کی سوچ، دل اور عمل کو متاثر کرتا ہے۔
اس مضمون میں ہم مولانا مودودی کی روشنی میں قرآن کی دعوتی حکمت عملی کو سادہ اور مدلل انداز میں سمجھیں گے۔
مولانا مودودی اور دعوتِ دین کا مقصد
مولانا مودودی کے نزدیک دین صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ ان کی دعوت صرف زبان سے تبلیغ نہیں، بلکہ سماج، معیشت اور سیاست تک ایک مکمل اصلاحی پیغام ہے۔
انہوں نے ہمیشہ یہ بات واضح کی کہ اگر معاشرہ بہتر بنانا ہے، تو ہمیں پہلے سوچ اور کردار کو بدلنا ہوگا۔ یہی تبدیلی دعوت کا پہلا قدم ہے۔
قرآن کی دعوتی حکمت عملی کے اصول
مولانا مودودی نے قرآن کی روشنی میں دعوت کے تین بڑے اصول بیان کیے:
فہم اور دلیل سے بات کریں
قرآن بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ مولانا نے بھی کہا کہ صرف جذباتی باتوں سے تبدیلی نہیں آتی۔ انسان کی عقل کو مخاطب بنانا ہوگا۔
“کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟” (سورۃ النساء: 82)
یہی وجہ ہے کہ ان کی تفہیم القرآن میں ہر بات دلیل سے سمجھائی گئی ہے۔
نرمی، حکمت اور شائستگی
قرآن کہتا ہے:
“اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت، اچھی نصیحت اور خوبصورت انداز سے” (سورۃ النحل: 125)
مولانا نے اس پر زور دیا کہ دعوت میں تلخی، جھگڑا یا سختی نہیں ہونی چاہیے۔ بات نرم ہو، انداز مہذب ہو، اور لہجہ دل کو لگنے والا ہو۔
تدریجی تبدیلی
مولانا کے مطابق قرآن کی دعوت یکدم نہیں، بلکہ مرحلہ وار آتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی مکہ میں فرد کو بدلا، پھر مدینہ میں معاشرہ بدلا۔ یہ تدریجی عمل دعوت کا اہم اصول ہے۔
دعوت کے تین بڑے مراحل
مولانا مودودی نے قرآن سے تین مراحل اخذ کیے:
1. انذار – خبردار کرنا
لوگوں کو ان کے غلط رویے اور انجام سے آگاہ کرنا۔
2. تبشیر – خوشخبری دینا
نیکی، جنت اور اللہ کی رحمت کا ذکر کرنا تاکہ لوگ امید سے جُڑیں۔
3. تعلیم و تربیت
ایمان لانے والوں کو سکھانا، سنوارنا اور ان کے کردار کو بہتر بنانا۔
سماجی اور سیاسی شعور کی اہمیت
مولانا نے دین کو صرف مسجد کی چار دیواری تک محدود نہیں کیا۔ ان کے مطابق:
-
دعوت میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بھی شامل ہے۔
-
سیاست، تعلیم اور معیشت میں بھی اصلاحی سوچ لانا ضروری ہے۔
-
صرف وعظ کافی نہیں، عملی قدم بھی ضروری ہیں۔
قرآن کہتا ہے:
“اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود کو نہ بدلے” (سورۃ الرعد: 11)
دعوت کس کو دی جائے؟
مولانا کے مطابق دعوت سب کے لیے ہے:
-
غیر مسلموں کے لیے دلیل اور ادب کے ساتھ۔
-
کم علم مسلمانوں کے لیے رہنمائی کے ساتھ۔
-
تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے فکری انداز میں۔
ان کی باتیں ہر سطح کے انسان کو مخاطب بناتی ہیں، اور یہی قرآن کا اسلوب ہے۔
مخالفت اور صبر کا راستہ
دعوت دینا آسان کام نہیں۔ مخالفت، طعن و تشنیع اور مشکلات آتی ہیں۔ مولانا خود اس کا سامنا کر چکے ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ صبر، استقامت اور اخلاق کے ساتھ ڈٹے رہے۔
“جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس پر صبر کرو” (سورۃ طٰہٰ: 130)
جدید ذرائع اور نئی راہیں
مولانا کے زمانے میں دعوت کے ذرائع محدود تھے، مگر آج ہمارے پاس ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، سوشل میڈیا، اور AI ٹولز جیسے مواقع ہیں۔
ہم نے اسی مقصد کے لیے Ask Maududi AI Chatbot تیار کیا ہے، جو مولانا کی فکر پر مبنی فوری اور درست رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ٹول خاص طور پر نوجوانوں کے لیے مؤثر ہے جو جلد اور آسان فہم معلومات چاہتے ہیں۔
دعوت کا اصل ہدف
مولانا مودودی کے مطابق:
“اسلام کی دعوت کا مقصد اللہ کی بندگی، دل کی اصلاح اور نظامِ زندگی کی تبدیلی ہے۔”
یہ صرف لوگوں کی تعداد بڑھانا نہیں بلکہ ایک صالح معاشرہ بنانا ہے۔
نتیجہ
مولانا مودودی کی تعبیر میں قرآن کی دعوتی حکمت عملی آج کے دور میں بھی نہایت مؤثر ہے۔ اگر ہم ان کے اصول اپنائیں، تو ہم نہ صرف اپنے اندر تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اسلام کی سچائی سے روشناس کرا سکتے ہیں۔
دعوت کے لیے حکمت، نرمی، تدریج اور فہم ضروری ہیں۔ مولانا نے یہی سکھایا، اور قرآن نے یہی راستہ دکھایا۔





