اسلام میں قربانی صرف ایک رسم نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے دی جانے والی ایک عظیم عبادت ہے۔ یہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اطاعت اور قربانی کی یاد ہے، جسے ہر سال مسلمان دنیا بھر میں عیدالاضحی کے موقع پر زندہ کرتے ہیں۔
مگر آج کچھ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ:
-
قربانی سے وسائل ضائع ہوتے ہیں
-
جانوروں پر ظلم ہوتا ہے
-
پیسہ صدقے میں دینا زیادہ فائدہ مند ہے
-
یہ صرف ایک پرانی رسم ہے
یہ سب اعتراضات بظاہر “عقلی” لگتے ہیں، مگر درحقیقت سطحی، ناسمجھی اور دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان اعتراضات کا بھرپور اور مدلل جواب دیا ہے۔ ان کے مطابق قربانی ایک با مقصد، مفید اور تربیتی عمل ہے، جس کا ہر پہلو انسان کے لیے فائدہ مند ہے۔
عام اعتراضات اور ان کے جوابات
1. “اتنے جانور کاٹنے سے گوشت ضائع ہوتا ہے”
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ قربانی صرف گوشت کھانے یا تقسیم کرنے کا عمل نہیں۔ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور تقویٰ ہے۔
قرآن کہتا ہے:
“اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون۔ بلکہ اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔” (سورۃ الحج: 37)
مزید یہ کہ گوشت ضائع نہیں ہوتا۔ لاکھوں لوگ جو عام دنوں میں گوشت خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے، انہیں قربانی کے دنوں میں اچھا گوشت میسر آتا ہے۔ یہ عمل معاشرتی ہمدردی اور انصاف کو فروغ دیتا ہے۔
2. “پیسہ صدقے میں دے دیتے، زیادہ فائدہ ہوتا”
یہ سوچ اس وقت درست ہوتی اگر قربانی صرف ایک فلاحی عمل ہوتا۔ لیکن قربانی عبادت ہے، اور عبادات کا مقصد صرف ظاہری فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ اللہ کی بندگی اور نفس کی تربیت بھی ہوتا ہے۔
اگر “مالی فائدے” کی بنیاد پر عبادات کو پرکھیں تو پھر نماز، روزہ اور حج بھی بے فائدہ نظر آئیں گے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ سب عبادات انسان کی روح، کردار اور دل کو پاک کرتی ہیں۔
3. “یہ تو جانوروں پر ظلم ہے!”
اسلام نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کا سب سے پہلا درس دیا۔ قربانی کے وقت جانور کو پانی پلانا، آرام دینا اور تیز چھری سے جلدی ذبح کرنا، سب اسلامی احکامات ہیں۔
جدید سائنس بھی مانتی ہے کہ اسلامی طریقہ ذبح، جانور کو کم سے کم تکلیف دیتا ہے۔ اس کے برعکس، صنعتی ذبح اور مغربی طریقے زیادہ بے رحمانہ ہوتے ہیں۔
4. “یہ صرف ایک پرانی رسم ہے، عبادت نہیں”
قربانی محض رسم نہیں بلکہ ایک شعائرِ اسلامی ہے، جو ایمان، تقویٰ، اور اللہ کی اطاعت کا عملی مظاہرہ ہے۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
“قربانی، انسان کو سکھاتی ہے کہ وہ اپنی سب سے قیمتی چیز بھی اللہ کے حکم پر قربان کر دے۔”
یہ عمل دل کو نرم کرتا ہے، نفس کو قابو میں رکھتا ہے، اور بندے کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔
قربانی کے روحانی اور اخلاقی فائدے
اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے
جب انسان اپنے مال، وقت اور محنت کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرتا ہے، تو اس کا دل خالص ہوتا ہے۔ یہی روحِ عبادت ہے۔
تقویٰ پیدا ہوتا ہے
قربانی دل میں اللہ کا خوف اور محبت دونوں پیدا کرتی ہے۔ یہ جذبہ انسان کو باقی زندگی میں بھی نیکی کی راہ پر رکھتا ہے۔
نفس کی تربیت ہوتی ہے
انسان اپنی خواہشات کو مار کر، دوسروں کا خیال رکھنا سیکھتا ہے۔ یہی زندگی کا اصل سبق ہے۔
قربانی کے سماجی فائدے
مساوات
غریب اور امیر دونوں گوشت کھاتے ہیں۔ کوئی محروم نہیں رہتا۔ معاشرتی فاصلے کم ہوتے ہیں۔
بھائی چارہ
رشتہ داروں، ہمسایوں اور ضرورت مندوں میں گوشت تقسیم کر کے انسان محبت، ہمدردی اور ایثار کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔
جدید دور میں قربانی کی افادیت
آج کا انسان زیادہ خود غرض ہو چکا ہے۔ قربانی جیسے اعمال اُسے دوسروں کا درد محسوس کرنا سکھاتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
“قربانی انسان کو یاد دلاتی ہے کہ دنیا میں سب کچھ اس کا نہیں، بلکہ وہ اللہ کا بندہ ہے۔”
یہ سوچ انسان کو عاجزی، شکر، اور انسانیت کا سبق دیتی ہے۔
مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے رہنمائی
اگر آپ ان اعتراضات کا علمی جواب چاہتے ہیں، تو مولانا مودودیؒ کی یہ کتابیں ضرور پڑھیں:
-
تفہیم القرآن (خصوصاً سورۃ الحج کی تفسیر)
-
رسائل و مسائل
-
اسلامی عبادات پر تحریری مضامین
ان میں نہ صرف دلائل ملیں گے بلکہ دین کی گہرائی کو سمجھنے کا نیا انداز بھی۔
نتیجہ
قربانی پر اٹھنے والے اعتراضات دراصل دین سے دوری، کم علمی، یا مغرب کی اندھی تقلید کا نتیجہ ہیں۔ ان کے پاس دلیل کم، جذبات زیادہ ہوتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ کی تحریریں ہمیں سکھاتی ہیں کہ عبادات کا مقصد صرف ظاہری فائدہ نہیں، بلکہ انسان کی اندرونی تبدیلی، معاشرتی اصلاح، اور روحانی ترقی ہے۔
قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے:
-
اللہ کے حکم پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے
-
دل میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے
-
دوسروں کا احساس اور بھلائی بڑھتی ہے
لہٰذا، ہمیں نہ صرف خود اس سنت پر عمل کرنا چاہیے بلکہ دوسروں تک اس کی اصل روح بھی پہنچانی چاہیے — عقل، محبت اور حکمت کے ساتھ۔