مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ برصغیر کے مشہور اسلامی مفکر اور مصلح تھے۔ انہوں نے اسلام کو جدید انداز میں پیش کیا۔ ساتھ ہی مغربی نظام تعلیم اور ثقافت پر بھی گہری نظر ڈالی۔ ان کے مطابق مغرب کی ترقی ظاہری ہے۔ اس کے پیچھے ایک فکری اور روحانی خلا چھپا ہوا ہے۔
مغربی نظامِ تعلیم کی بنیادیں
مولانا مودودی کے مطابق مغربی تعلیم کی بنیاد الحاد، مادیت اور انسان پرستی پر ہے۔ مغرب نے مذہب کو زندگی سے الگ کر دیا ہے۔ ریاست، معیشت، اور تعلیم مذہب سے آزاد ہو چکی ہیں۔
اس کے نتیجے میں انسان صرف دنیاوی مفادات کا غلام بن گیا ہے۔ روحانیت، اخلاقیات، اور مقصدِ حیات کو بھلا دیا گیا ہے۔
تعلیم کا مقصد: اسلام اور مغرب کا فرق
اسلام میں تعلیم کا مقصد صرف روزگار حاصل کرنا نہیں۔ یہ انسان کی روحانی، اخلاقی، اور سماجی تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔ اسلام انسان کو اللہ کے سامنے جوابدہ بناتا ہے۔
مغربی تعلیم صرف ذہن کو علم دیتی ہے۔ دل، روح، اور کردار کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ مولانا مودودی کے مطابق مغرب انسان کو “کارآمد مشین” بنانا چاہتا ہے، نہ کہ باشعور بندۂ مومن۔
مغربی ثقافت پر تنقید
مولانا مودودی نے مغربی ثقافت کو اخلاقی زوال کا سبب قرار دیا۔ ان کے مطابق مغربی معاشرہ “آزادی” کے نام پر حدود کو توڑ چکا ہے۔
چند نمایاں پہلو:
-
فلمیں، فیشن اور موسیقی اخلاقی بگاڑ کو فروغ دیتے ہیں
-
خاندان کا ادارہ کمزور ہو چکا ہے
-
عورت کو “آزادی” کے نام پر استعمال کیا گیا ہے
مولانا کہتے ہیں کہ مغرب میں رشتوں کی قدر باقی نہیں رہی۔ صرف ذاتی خواہشات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
اسلامی متبادل
مولانا مودودی نے اسلام کو مغربی نظام کا متبادل قرار دیا۔ اسلام انسان کی مکمل شخصیت کی تربیت کرتا ہے۔
اسلامی نظام تعلیم:
-
علم کو عبادت سمجھتا ہے
-
کردار سازی پر زور دیتا ہے
-
مرد و زن کو ان کے فطری کردار کے مطابق تعلیم دیتا ہے
اسلامی ثقافت صرف فنونِ لطیفہ پر مشتمل نہیں۔ یہ زندگی کے ہر پہلو میں دین کو شامل رکھتی ہے۔
اسلامی تحریک کی ضرورت
مولانا مودودی کے نزدیک اصلاح صرف انفرادی نہیں ہونی چاہیے۔ پوری سوسائٹی کی تعمیر ضروری ہے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے جماعت اسلامی قائم کی۔
ان کے مطابق:
“جب تک ہمارا نظام تعلیم اسلام کے تابع نہیں ہو جاتا، ہم مغرب کی فکری غلامی سے نہیں نکل سکتے۔”
آج کے دور میں اس فکر کی اہمیت
آج ٹیکنالوجی کے باوجود انسان تنہا ہے۔ خاندانی نظام بکھر چکا ہے۔ ذہنی دباؤ اور خودکشی کے واقعات بڑھ چکے ہیں۔
یہی وہ مسائل ہیں جن پر مولانا مودودی نے برسوں پہلے تنبیہ کی تھی۔ ان کے مطابق اصل ترقی وہی ہے جو روح، عقل، اور اخلاق کو ساتھ لے کر چلے۔
تنقید کے ساتھ تعمیری عمل
مولانا کی فکر صرف تنقید نہیں، ایک تعمیری دعوت بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم:
-
ایک متوازن نظام تعلیم بنائیں
-
اسلامی اقدار پر مبنی ثقافت کو فروغ دیں
-
نوجوانوں کو مغرب کی اندھی تقلید سے بچائیں
نتیجہ
مولانا مودودی کی تنقید وقتی ردعمل نہیں، بلکہ فکری رہنمائی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مغربی نظام کی چمک صرف دھوکہ ہے۔ اصل کامیابی اسلامی تعلیمات میں ہے۔