مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے وہ مفکر اسلام ہیں جنہوں نے اسلام کو ایک جامع نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا۔ ان کی فکر کا مرکزی نکتہ “خلافت” کا تصور ہے، جسے انہوں نے محض ایک سیاسی نظام کے بجائے ایک اخلاقی و دینی ذمہ داری قرار دیا۔ اس مضمون میں ہم مولانا مودودیؒ کے تصورِ خلافت کا تفصیلی جائزہ لیں گے، اس کی بنیاد، خصوصیات، تقابلی جائزہ اور دورِ حاضر میں اس کی معنویت کو زیر بحث لائیں گے۔
خلافت کا بنیادی مفہوم
مولانا مودودیؒ کے نزدیک خلافت کا اصل مطلب “نائب” یا “خلیفہ” ہونا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کے احکام کو نافذ کرنے کی ذمہ داری۔ انسان زمین پر اللہ کا نائب ہے اور اُسے اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ کی ہدایات کو فوقیت دے۔
“اسلامی خلافت کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہو، اور انسان صرف اُس کے نائب کی حیثیت سے حکومت کرے۔”
(مولانا مودودیؒ، خلافت و ملوکیت)
مولانا مودودیؒ کے تصورِ خلافت کی بنیاد
قرآن و سنت کی روشنی میں
مولانا مودودیؒ کی فکر قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق خلافت کوئی اجتہادی نظریہ نہیں بلکہ قرآن کا واضح پیغام ہے، جیسا کہ سورہ نور کی آیت 55 میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:
“اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ وہ انہیں زمین میں خلافت عطا کرے گا…”
عبادت اور سیاست کا امتزاج
ان کے مطابق عبادت اور سیاست الگ الگ شعبے نہیں بلکہ ایک ہی دینی نظام کے اجزاء ہیں۔ خلافت میں عبادات، اخلاق، معیشت اور قانون سب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے۔
خلافت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ
مغربی جمہوریت اور اسلامی خلافت
مولانا مودودیؒ مغربی جمہوریت کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف سمجھتے تھے۔ ان کے مطابق:
-
مغربی جمہوریت میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے
-
اسلامی خلافت میں حاکمیت اللہ کی ہوتی ہے
شوریٰ کا نظام
مولانا مودودیؒ کے تصور میں خلافت ایک آمرانہ نظام نہیں بلکہ مشورے (شوریٰ) پر مبنی جمہوریت ہوتی ہے۔ خلیفہ کو فیصلے کرتے وقت اہل الرائے سے مشورہ لینا فرض ہے، مگر یہ مشورہ قرآن و سنت کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
خلافت کی خصوصیات
قانونی بالادستی
اسلامی خلافت میں قانون سازی کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔ انسانوں کو صرف اسی دائرے میں اجتہاد کی اجازت ہے جہاں قرآن و سنت خاموش ہوں۔
عدل و انصاف کا قیام
عدل و انصاف خلافت کا لازمی جزو ہے۔ مولانا مودودیؒ کے مطابق کوئی نظام اس وقت تک اسلامی نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے شہریوں کو مساوی انصاف فراہم نہ کرے۔
انسانی حقوق کی حفاظت
خلافت میں تمام شہریوں — مسلمان اور غیر مسلم دونوں — کے بنیادی حقوق محفوظ ہوتے ہیں۔ ان میں مذہبی آزادی، جان و مال کی حفاظت، اور اظہارِ رائے کی آزادی شامل ہے۔
مولانا مودودیؒ کی تحریکِ اسلامی
جماعت اسلامی کا قیام
مولانا مودودیؒ نے 1941ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد خلافت کے قیام کے لیے عوامی شعور بیدار کرنا تھا۔ ان کے نزدیک خلافت کا قیام صرف سیاسی عمل سے ممکن نہیں بلکہ اخلاقی و فکری تربیت کے ذریعے ہی حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے۔
تربیت یافتہ قیادت
ان کی نظر میں خلافت کی بنیاد تربیت یافتہ قیادت پر ہوتی ہے۔ قیادت صرف صلاحیت اور تقویٰ کی بنیاد پر دی جا سکتی ہے، نہ کہ نسب، طاقت یا دولت کی بنیاد پر۔
خلافت اور موجودہ دور
موجودہ جمہوری ریاستیں
مولانا مودودیؒ کے مطابق موجودہ جمہوری ریاستیں، خصوصاً مسلمان ممالک میں، صرف اسلامی نام کی حد تک مسلم ہیں۔ جب تک ان کے آئین، معیشت، تعلیمی نظام اور عدالتی ڈھانچے اسلامی اصولوں پر مبنی نہیں ہوں گے، خلافت کا تصور ادھورا رہے گا۔
عالمی خلافت کی بحث
مولانا مودودیؒ ایک عالمی خلافت کے حامی تھے، لیکن ان کا زور پہلے قومی سطح پر اسلامی نظام کے نفاذ پر تھا۔ ان کے مطابق عالمی خلافت کا قیام تدریجی عمل سے ممکن ہے، پہلے ایک ملک میں اسلامی نظام قائم ہو، پھر یہ وسعت اختیار کرے۔
خلافت کی راہ میں رکاوٹیں
فکری غلامی
مولانا مودودیؒ نے مسلم معاشروں میں فکری غلامی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ جب تک مسلمان اپنی فکری آزادی بحال نہیں کرتے، خلافت ممکن نہیں۔
مغربی اثرات
استعماریت اور مغربی نظامِ تعلیم نے مسلم ذہن کو اسلام سے دور کر دیا ہے۔ خلافت کے قیام کے لیے فکری انقلاب ضروری ہے، جو قرآن و سنت کی بنیاد پر ہو۔
تنقید اور دفاع
خلافت و ملوکیت پر بحث
مولانا مودودیؒ کی کتاب “خلافت و ملوکیت” نے اسلامی تاریخ کے حوالے سے ایک بڑی بحث چھیڑ دی۔ انہوں نے بنو امیہ کے دور کو خلافت سے انحراف قرار دیا۔ اس پر بعض علماء نے سخت تنقید کی، لیکن مولاناؒ نے اپنے مؤقف پر علمی انداز میں دلائل دیے۔
علمی دیانت
مولانا مودودیؒ پر تنقید کے باوجود، ان کی علمی دیانت کو اکثر علما و مفکرین نے سراہا۔ انہوں نے حقائق کو چھپانے یا جذباتی بیانیہ دینے کے بجائے دلیل اور تحقیق سے کام لیا۔
نتیجہ: مولانا مودودیؒ کا پیغام آج بھی زندہ ہے
مولانا مودودیؒ کے تصورِ خلافت نے امتِ مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ اسلام محض عبادات کا مذہب نہیں بلکہ مکمل نظامِ زندگی ہے۔ خلافت محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی، قانونی اور دینی فریضہ ہے۔ آج کے دور میں، جب مسلم دنیا بحران کا شکار ہے، مولانا مودودیؒ کی فکر ہمیں فکری، سیاسی اور اخلاقی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔