Unlock the timeless wisdom of Syed Abul Ala Maududi's, now powered by cutting-edge AI.

نظامِ خلافت یا پارلیمانی حکومت؟ اسلام کا حقیقی ماڈل – مودودیؒ کی تحقیق

نظامِ خلافت یا پارلیمانی حکومت

دنیا بھر کے مسلمان یہ سوال اکثر اٹھاتے ہیں کہ اسلام کا اصل سیاسی نظام کیا ہے؟ کیا یہ خلافت ہے یا پارلیمانی جمہوریت؟ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس موضوع پر علمی تحقیق کے ذریعے ایک مدلل اور واضح موقف پیش کیا، جو آج بھی اسلامی سیاسی فکر میں اہم مقام رکھتا ہے۔

خلافت کا تصور: اسلامی بنیادیں

خلافت، اسلام میں محض ایک سیاسی نظام نہیں بلکہ ایک دینی ذمہ داری ہے۔ قرآن و سنت میں خلیفہ کا تصور ایسے رہنما کا ہے جو اللہ کی زمین پر اس کے احکامات کا نفاذ کرے، عدل قائم کرے اور شریعت کے مطابق حکمرانی کرے۔

خلفائے راشدین کا نمونہ

مودودیؒ کے مطابق خلافت کا بہترین نمونہ خلفائے راشدین کی حکومت ہے۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جس میں:

  • حکمران عوام کی رضامندی سے منتخب ہوتا تھا

  • شریعت سب پر نافذ تھی، حتیٰ کہ خلیفہ بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھا

  • مشاورت کا نظام مؤثر تھا، اور رائے عامہ کو اہمیت دی جاتی تھی

مولانا مودودیؒ کا تجزیہ

مودودیؒ نے اپنی کتابوں خصوصاً “اسلامی ریاست” اور “خلافت و ملوکیت” میں یہ واضح کیا کہ خلافت صرف ایک مذہبی تصور نہیں بلکہ ایک مکمل سیاسی و سماجی نظام ہے جس میں:

  • حاکمیت صرف اللہ کی ہے

  • انسان خلیفہ ہیں، یعنی وہ اللہ کے احکامات کو زمین پر نافذ کرنے کے مکلف ہیں

  • کوئی بھی قانون سازی شریعت سے متصادم نہیں ہو سکتی

پارلیمانی جمہوریت: مغربی ماڈل

دوسری جانب پارلیمانی جمہوریت ایک مغربی نظام ہے جس کی بنیاد سیکولر اقدار پر رکھی گئی ہے۔ اس میں قانون سازی کا اختیار انسانوں کے پاس ہوتا ہے اور مذہب کو نجی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔

پارلیمانی نظام کی خصوصیات

  • عوام کے منتخب نمائندے قانون بناتے ہیں

  • حکمران وقت مخصوص مدت تک برسرِ اقتدار رہتا ہے

  • اکثریتی ووٹ سے فیصلے کیے جاتے ہیں

  • ریاست مذہب سے غیر جانبدار ہوتی ہے

مودودیؒ کا موقف: خلافت بمقابلہ جمہوریت

مولانا مودودیؒ کا مؤقف یہ نہیں تھا کہ جمہوریت کلیتاً رد کرنے کے قابل ہے، بلکہ ان کا زور اس بات پر تھا کہ جمہوریت اگر اسلامی اصولوں کے تابع ہو تو قابل قبول ہے۔

“تھیو ڈیموکریسی” کا تصور

مودودیؒ نے “تھیو ڈیموکریسی” یعنی الٰہی حاکمیت کے تحت جمہوریت کا تصور پیش کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ:

  • عوام کو رائے دہی کا حق حاصل ہو

  • لیکن قانون سازی کی حدود شریعت کے تابع ہوں

  • عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکتے ہیں، مگر وہ نمائندے قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر فیصلے کریں گے

مغربی جمہوریت کی خامیاں

مودودیؒ نے مغربی جمہوریت پر بھی تنقید کی۔ ان کے مطابق:

  • اس میں حاکمیت اللہ کے بجائے انسانوں کے پاس ہوتی ہے

  • اکثریتی رائے، حق و باطل کا معیار نہیں ہو سکتی

  • اخلاقی انحطاط کو فروغ ملتا ہے کیونکہ مذہب کو قانون سازی سے الگ کر دیا جاتا ہے

خلافت اور جمہوریت میں ہم آہنگی

مودودیؒ اس بات کے قائل تھے کہ اسلام میں جمہوریت اور خلافت مکمل طور پر متصادم نہیں۔ اگر جمہوریت کو اسلامی اصولوں کا پابند بنایا جائے تو یہ خلافت کا جدید اور قابلِ عمل ماڈل بن سکتی ہے۔

شورائیت کا اصول

اسلام میں مشاورت یعنی شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی اہم فیصلے مشورے سے ہوتے تھے۔ یہی اصول آج کے جمہوری نظام میں بھی موجود ہے، بشرطیکہ اس پر اسلامی اقدار کی نگرانی ہو۔

مولانا مودودیؒ کی تجاویز برائے اسلامی ریاست

مودودیؒ نے ایک نظریاتی خاکہ پیش کیا کہ اگر مسلمان آج اسلامی ریاست قائم کرنا چاہیں تو انہیں کن اصولوں کو اپنانا ہوگا:

1. قرآن و سنت کو آئینی بنیاد بنانا

ریاست کا آئین قرآن و سنت پر مبنی ہو تاکہ ہر قانون ان سے ماخوذ ہو۔

2. عوام کی رائے کو اہمیت دینا

جمہوریت کے اصول اپنائے جائیں، مگر فیصلے شریعت کے مطابق ہوں۔

3. عدلیہ کی خودمختاری

ایسا عدالتی نظام قائم کیا جائے جو شریعت کی حفاظت کرے اور ظلم کے خلاف مؤثر ہو۔

4. اخلاقی نظام کی ترویج

ریاست کا مقصد صرف نظم و نسق نہیں بلکہ اسلامی اخلاقیات کا فروغ بھی ہونا چاہیے۔

عملی چیلنجز

اگرچہ خلافت کا ماڈل نہایت مثالی ہے، لیکن آج کے دور میں اسے نافذ کرنا کئی چیلنجز کے ساتھ ہے:

  • مسلم ممالک کا بکھرا ہوا سیاسی نقشہ

  • مذہبی فرقہ واریت

  • مغربی استعمار کا دباؤ

  • داخلی کمزوریاں اور بدعنوانی

مودودیؒ کا حل

ان چیلنجز کا حل، مودودیؒ کے مطابق، تدریجی جدوجہد میں ہے۔ وہ انقلاب کو محض نعروں اور احتجاج سے نہیں بلکہ فکری، تعلیمی اور سیاسی میدان میں بیداری سے جوڑتے ہیں۔

نتیجہ

اسلام کا حقیقی ماڈل، مولانا مودودیؒ کی تحقیق کے مطابق، نہ تو خالص مغربی جمہوریت ہے اور نہ ہی ملوکیت۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو خلافت کے اصولوں پر مبنی ہو مگر جدید دور کی ضروریات اور عوامی شرکت کو بھی مدنظر رکھے۔

آج کے لیے رہنمائی

آج کے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ نہ صرف سیاسی نظام پر غور کریں بلکہ اس کی اسلامی روح کو سمجھیں۔ خلافت کا مقصد محض حکمرانی نہیں بلکہ عدل، شریعت کا نفاذ اور اخلاقی فلاح ہے۔ اگر کوئی نظام یہ مقاصد پورا کرے اور اسلامی اصولوں کا پابند ہو، تو وہی اسلام کا حقیقی ماڈل ہے۔

مزید پڑھیں مولانا مودودیؒ کی اسلامی تعلیمات
تفصیل کے لیے دیکھیے جماعت اسلامی کا تعارف

:شیئر کریں

Syed Abul Ala Maududi (RA)

Related Articles

Explore Syed Abul Ala Maududi’s profound writings and insightful analyses shaping contemporary Islamic thought.