Unlock the timeless wisdom of Syed Abul Ala Maududi's, now powered by cutting-edge AI.

مسلم خواتین سے اسلام کے مطالبات

اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔

:شیئر کریں

عرض ناشر

یہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تقریر ہے جو آپ نے لاہور میں خواتین کے ایک اجتماع عام میں ۱۵ فروری ۱۹۴۸ء؁ کو فرمائی تھی۔ اگرچہ اس تقریر کی مخاطب خواتینِ پاکستان ہیں اس لیے قدرتاً اس تقریر کے اندر پاکستان کے مخصوص مسائل سے بحث کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ پاکستانی اور غیر پاکستانی سب ہی خواتین کے لیے یکساں قابل توجہ اور مفید ہیں۔ ہم اس اہم اور مفید تقریر کو افادۂ عام کی غرض سے شائع کر رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس سے خواتین کو اپنا دینی مقام اور اپنی ذمہ داریاں پہنچاننے میں بڑی مدد ملے گی۔

منیجنگ ڈائریکٹر
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمٹیڈ

تعریف اُس خدا کے لیے ہے جو ساری کائنات کا، اور اس کے رہنے والوں کا خالق، مالک، رازق، مربی، آقا اور نگہبان ہے، جس نے انسان کو عقل عطا کی، صحیح اور غلط کی سمجھ دی، بھلے اور بُرے کی تمیز بخشی، سوچنے سمجھنے اور زندگی کے راستے پہچاننے کی قابلیت عطا کی، اورانسان کی رہنمائی کے لیے اپنی کتابیں نازل کیں اور اپنے رسول بھیجے اور درود وسلام ہو اللہ کے اُن نیک بندوں پر جنہوں نے انسان کوزندگی بسر کرنے کا سیدھا راستہ دکھایا، اسے پاکیزہ اخلاق کی تعلیم دی، اور دنیا میں انسان بن کر رہنے کا طریقہ سکھایا۔

مائو! بہنو! بیٹیو! آج اس دنیا میں کروڑوں انسان ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، مگر جس دنیا کو ہم دنیائے اسلام کے نام سے موسوم کرتے ہیں اس کا حال بالکل ایک چڑیا گھر کا سا ہے۔ جس طرح چڑیا گھر میں قسم قسم کا جانور بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والا موجود ہوتا ہے اور مختلف قسم کے جانوروں میں کوئی چیز اس کے سوا مشترک نہیں ہوتی کہ سب ایک چڑیا گھر میں رہتے ہیں۔ تقریباً ایسا ہی حال مسلمانوں کی دنیا کا بھی ہے کہ اس میں طرح طرح کے آدمی جمع ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں خدا کے وجودمیں شک ہے، ایسے بھی ہیں جن کو وحی ورسالت میں شبہ ہے، ایسے بھی ہیں جو آخرت کے منکر ہیں اور یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ مرنے کے بعد خدا کی عدالت میں کبھی اس زندگی کا حساب بھی پیش کرنا ہے، ان میں وہ بھی ہیں جو بھلائی اور برائی کی اس تمیز سے انکار کرتے ہیں جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے اور جانوروں کی طرح غافل زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی ہیں جن کی نگاہ میں اسلام کا سکھایا ہوا طریق زندگی صحیح نہیں ہے اور جنہوں نے دنیا کے دوسرے طریقوں میں سے اپنی خواہشات کے مطابق کوئی طریقہ پسند کر رکھا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور مسلمان کہلائے جانے پر مُصر بھی ہیں اور وہ تمام حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں جو مسلمانوں کی سوسائٹی میں ایک مسلمان ہی کو حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس مجموعے میں بہت کم لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو فی الواقع اس معنی میں مسلمان ہوں جس معنی میں اسلام کسی شخص کو مسلمان کہتا ہے۔

آخر یہ صورتِ حالات کیوں ہے؟ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہماری مسلمان دنیا زیادہ تر نسلی مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو صرف اس وجہ سے مسلمان ہیں کہ ان کے باپ دادا مسلمان تھے اور اتفاق سے یہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے ہیں۔ آپ اگر سنجیدگی سے غور کریں تو یہ حقیقت آپ پر واضح ہو جائے گی کہ انسان کو پیدائش سے نسب مل سکتا ہے، نسلیت مل سکتی ہے، وطنیت مل سکتی ہے، لیکن کسی شخص کو محض پیدائش سے اسلام نہیں مل سکتا۔ آدمی پیدائشی طور پر جاٹ ہو سکتا ہے، راجپوت ہو سکتا ہے، ہندوستانی ہو سکتا ہے، انگریز اور جرمن ہو سکتا ہے، لیکن ماں کے پیٹ اور باپ کے نطفہ سے آدمی کو دین نہیں مل سکتا۔ دین تو صرف اس طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ آدمی جان بوجھ کر اسے پسند کرے اور اپنے ارادے سے اس کو اختیار کرے۔ یہ وجہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ نسلی مسلمان ہیں اور محض باپ دادا کے گھر سے انہیں اسلام سے نسبت حاصل ہوئی ہے، ان کے پاس مسلمانوں کے سے نام تو ہیں لیکن وہ صفت ان میں مفقود ہے جس کا نام اسلام ہے، ان کے سامنے وہ طریقِ زندگی ہے ہی نہیں جو اسلام نے ان کے لیے تجویز کیا ہے۔ انہوں نے نہ کبھی اسے جاننے کی کوشش کی ہے، نہ اسے اپنے لیے پسند کیا ہے اور نہ اس پر چلنے کا ارادہ کیا ہے حالانکہ اسلام کی جو حقیقت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں یہ ہے کہ:
ذاق طعم الایمان من رضی باللّٰہ وباو بمحمدٍ رسولاً وبالاسلامِ دیناًo
’’یعنی ایمان کا مزا چکھا اس شخص نے جو راضی ہو گیا اس پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو، اسلام ہی اس کا طریق زندگی ہو، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رہنما ہوں۔‘‘
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس شخص نے سوچ سمجھ کر اسلام کو برضا ورغبت قبول نہیں کیا وہ اسلام اور ایمان کے مزے تک سے ناآشنا ہے، اس نے دین کا ذائقہ چکھا ہی نہیں۔

مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایک آدمی پورے شعور کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ دنیا میں خدائی، پروردگاری، اور آقائی کے جتنے مُدعی پائے جاتے ہیں ان سب میں سے صرف ایک ربُ العالمین ہی کی بندگی اُسے کرنی ہے۔ جن جن طاقتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ آدمی اُن کی مرضی کی پیروی کرے، ان کے احکام کی اطاعت کرے اور اپنی شخصیت کو ان کے حوالے کر دے، ان سب میں سے صرف ایک اللہ ہی کی ہستی ایسی ہے جس کے آگے سرِ اطاعت اُسے جھکا دینا ہے، اور وہی ہے جس کی مرضی اسے ڈھونڈھنی ہے، پھر مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں کے درمیان آدمی یہ فیصلہ کر لے کہ اسے صرف وہی ایک طریق زندگی پسند ہے جس کو اسلام نے پیش کیاہے۔ دوسرے طریقوں کو ترجیح دینا تو درکنار، ان کی طرف کوئی رغبت اور لگاوٹ بھی اس کے دل میں نہ ہو، اس کو دل سے اسلام ہی کا طریقہ مرغوب اور پسندیدہ ہو۔ پھر مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں انسان کی رہنمائی ورہبری کے جتنے مُدعی گزرے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں ان سب کے درمیان ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو آدمی اپنی رہنمائی کے لیے چُن لے اور فیصلہ کر لے کہ اسے بس آپؐ ہی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔
اس طرح جب کوئی شخص اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما تسلیم کر لے تب کہیں وہ مسلمان ہوتا ہے اور جس نے اس طرح سے اسلام قبول کیا اس کا کام یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی اوراسلام کے قانون اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے تابع کر دے۔ پھراس کے لیے چون وچرا کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا، پھر اسے یہ کہنے کا حق نہیں رہتا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں یہ حکم دیا ہے، اور اگرچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ رہنمائی کی ہے، اور اگرچہ قرآن اس بارے میں یہ فیصلہ دیتا ہے مگر میری رائے اس سے متفق نہیں ہے اور میں چلوں گا اپنی ہی رائے پر، یا دنیا کا چلتا ہوا طریقہ اس کے خلاف ہے اور مجھے پیروی اسی طریقہ کی کرنی ہے جو دنیا میں چل رہا ہو۔ یہ رویہ جس شخص کا ہو اس کے متعلق سمجھ لینا چاہیے کہ حقیت میں وہ ایمان لایا ہی نہیں ہے حقیقی ایمان لانا تو یہ ہے کہ آدمی اپنی پسند کو، اپنی خواہشات اور جذبات کو اپنے خیالات اور نظریات کو پوری طرح اسلام کے ماتحت کر دے، اور ہر اس غیر اسلامی طریقہ کو رد کر دے جو دنیا میں رائج ومقبول ہو یا جس کی طرف نفس کا شیطان رغبت دلائے۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں بیان فرماتے ہیں:
لا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعاً لِمَا جِئْتُ بِہٖ۔
’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات نفس اس ہدایت کے تابع نہ ہو جائیں جسے میں لایا ہوں۔‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب تک آدمی کے نفس کا شیطان خدا کے آگے ڈگیں ڈال نہ دے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کر دے اس وقت تک آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جب تک کسی شخص کے نفس کا یہ دعویٰ قائم ہے کہ زندگی میں میری خواہش کی اطاعت ہونی چاہیے، اس وقت تک اس کے دل میں ایمان واسلام نہیں ہے ایمان واسلام یہ ہے کہ آدمی کا دل کہنے لگے کہ میں بے چون وچرا دین کی اطاعت پر راضی ہوں۔
پھر اسلامی زندگی کے معنی یہ ہیںکہ آدمی میں ذمہ داری کا احساس ہو۔ مومن کی زندگی ایک ذمہ دارانہ زندگی ہوتی ہے۔ جس دل میں ایمان موجود ہو وہ کبھی اس احساس سے خالی نہیں ہو سکتا کہ اسے اپنی زندگی کے سارے اعمال کے لیے، خیالات کے لیے، خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، اس کو مرنے کے بعد یہ حساب دینا ہے کہ دنیا میں اس نے کیا کیا؟ کیا کہا اور سنا؟ کن طریقوں سے زندگی بسر کی؟ کن مشاغل میں اپنی قوتیں اور قابلتیں صرف کیں؟ کن ذرائع سے کمایا؟ اور کن راہوں میں اپنے مال کو صرف کیا؟ اور کن مقاصدکے لیے دنیا میں سعی وکوشش کی؟ مومن کبھی اس خیال میں مبتلا نہیں ہوتا کہ ہمیں بس مر کرمٹی ہو جانا ہے، اور دنیا سے اسی طرح گزر جانا ہے کہ دنیا کے افعال واعمال کا کوئی نتیجہ برآمد ہی نہ ہو گا۔ نہیں، وہ پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس زندگی کے بعد پھر ایک زندگی ہے جس میں خدا کے سامنے حاضر ہو کر اسے اپنے ایک ایک کام کا، ایک ایک حرکت کا، اورایک ایک ذرّے کا حساب دینا ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
الاکلکم رَاعٍ وکلکم مسئول عنہ رعیتہٖ
’’خبردار تم میں سے ہرایک راعی ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘
رعیت سے مراد وہ سب کچھ ہے جو آدمی کے چارج میں دیا گیا ہے، چاہے وہ بال بچے ہوں یا نوکر اور ماتحت ہوں یا جانور اور اسباب زندگی ہوں۔ جس شے پر بھی کسی انسان کا حکم چلتا ہو اور جو کوئی اس کے تابع ہو وہی اس کی رعیت ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے دنیا میں کوئی بھی بے رعیت نہیں ہے۔ ہر ایک کسی نہ کسی دائرے میں راعی کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت گھر کی راعی ہے، شوہر بال بچوں کا راعی ہے، افسر ماتحتوں کا راعی ہے، حکمران پوری آبادی کا راعی ہے۔ بہرحال ہر انسان کسی نہ کسی طرح کا ضرور راعی ہے، اور کوئی نہ کوئی اس کے چارج میں ضرور ہے۔ اسی رعیت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کو متنبہ کرتے ہیں کہ خبردار ہو، تم اپنی رعیت کے ذمہ دار ہو، اور تمہیں اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہو گی کہ تم نے اپنی رعیت پر اختیارات کس طرح استعمال کیے۔ یہ عقیدہ مسلمان کی زندگی کو ایک ذمہ دارانہ زندگی بناتا ہے۔ مسلمان کبھی اس طرح کی زندگی بسر نہیں کر سکتا کہ وہ جو چاہے کھائے جوچاہے پہنے، جن مشاغل میں چاہے اپنی قوتیں اور اپنا وقت صرف کرتا رہے، جدھر خواہشاتِ نفس لے جائیں اُدھر آزادی سے بڑھتا چلا جائے۔ وہ کوئی چھوٹا ہوا جانور نہیں ہوتا کہ جس کھیت میں چاہے گھس جائے، جہاں ہرا چارہ نظر آئے منہ مار دے اور جس راستے کی طرف منہ اٹھ جائے، اسی پر دوڑنے لگے۔ مسلمان کی زندگی کی صحیح مثال وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ
مثل المؤمن ومثل الایمان کمثل الفرس فی اٰخیتہٖ یجول ثم یرجع اِلٰی اٰخیتہٖ ۵
’’مسلمان اور ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے کھونٹے سے بندھا ہوا گھوڑا ہوتا ہے کہ چاہے وہ کتنی ہی گردشیں اور جولانیاں دکھائے، بہرحال اس کے گلے کی رسی اسے مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد اپنے کھونٹے کی طرف پلٹ جائے۔‘‘
مسلمان جب ایمان وطاعت کے کھونٹے سے بندھا ہے تو رسی کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، بہرحال وہ ایک خاص دائرے کے اندر ہی اندر گھوم پھر سکتا ہے، اس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا۔ وہ اپنی ساری قوتیں اور کوششیں اسی حد کے اندر صرف کر سکتا ہے جو خدا اور رسول نے مقرر کر دی ہیں۔ اس کی ساری دلچسپیاں، ساری تفریحیں، ساری سرگرمیاں اور تمام کاروائیاں مقررہ حدود کے اندر ہی محدود رہیں گی۔ ان حدود سے باہر جانے کی وہ جرأت نہیں کر سکتا۔

مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایک آدمی پورے شعور کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ دنیا میں خدائی، پروردگاری، اور آقائی کے جتنے مُدعی پائے جاتے ہیں ان سب میں سے صرف ایک ربُ العالمین ہی کی بندگی اُسے کرنی ہے۔ جن جن طاقتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ آدمی اُن کی مرضی کی پیروی کرے، ان کے احکام کی اطاعت کرے اور اپنی شخصیت کو ان کے حوالے کر دے، ان سب میں سے صرف ایک اللہ ہی کی ہستی ایسی ہے جس کے آگے سرِ اطاعت اُسے جھکا دینا ہے، اور وہی ہے جس کی مرضی اسے ڈھونڈھنی ہے، پھر مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں کے درمیان آدمی یہ فیصلہ کر لے کہ اسے صرف وہی ایک طریق زندگی پسند ہے جس کو اسلام نے پیش کیاہے۔ دوسرے طریقوں کو ترجیح دینا تو درکنار، ان کی طرف کوئی رغبت اور لگاوٹ بھی اس کے دل میں نہ ہو، اس کو دل سے اسلام ہی کا طریقہ مرغوب اور پسندیدہ ہو۔ پھر مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں انسان کی رہنمائی ورہبری کے جتنے مُدعی گزرے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں ان سب کے درمیان ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو آدمی اپنی رہنمائی کے لیے چُن لے اور فیصلہ کر لے کہ اسے بس آپؐ ہی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے۔
اس طرح جب کوئی شخص اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما تسلیم کر لے تب کہیں وہ مسلمان ہوتا ہے اور جس نے اس طرح سے اسلام قبول کیا اس کا کام یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی اوراسلام کے قانون اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے تابع کر دے۔ پھراس کے لیے چون وچرا کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا، پھر اسے یہ کہنے کا حق نہیں رہتا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں یہ حکم دیا ہے، اور اگرچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ رہنمائی کی ہے، اور اگرچہ قرآن اس بارے میں یہ فیصلہ دیتا ہے مگر میری رائے اس سے متفق نہیں ہے اور میں چلوں گا اپنی ہی رائے پر، یا دنیا کا چلتا ہوا طریقہ اس کے خلاف ہے اور مجھے پیروی اسی طریقہ کی کرنی ہے جو دنیا میں چل رہا ہو۔ یہ رویہ جس شخص کا ہو اس کے متعلق سمجھ لینا چاہیے کہ حقیت میں وہ ایمان لایا ہی نہیں ہے حقیقی ایمان لانا تو یہ ہے کہ آدمی اپنی پسند کو، اپنی خواہشات اور جذبات کو اپنے خیالات اور نظریات کو پوری طرح اسلام کے ماتحت کر دے، اور ہر اس غیر اسلامی طریقہ کو رد کر دے جو دنیا میں رائج ومقبول ہو یا جس کی طرف نفس کا شیطان رغبت دلائے۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوں بیان فرماتے ہیں:
لا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعاً لِمَا جِئْتُ بِہٖ۔
’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات نفس اس ہدایت کے تابع نہ ہو جائیں جسے میں لایا ہوں۔‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب تک آدمی کے نفس کا شیطان خدا کے آگے ڈگیں ڈال نہ دے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کر دے اس وقت تک آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جب تک کسی شخص کے نفس کا یہ دعویٰ قائم ہے کہ زندگی میں میری خواہش کی اطاعت ہونی چاہیے، اس وقت تک اس کے دل میں ایمان واسلام نہیں ہے ایمان واسلام یہ ہے کہ آدمی کا دل کہنے لگے کہ میں بے چون وچرا دین کی اطاعت پر راضی ہوں۔
پھر اسلامی زندگی کے معنی یہ ہیںکہ آدمی میں ذمہ داری کا احساس ہو۔ مومن کی زندگی ایک ذمہ دارانہ زندگی ہوتی ہے۔ جس دل میں ایمان موجود ہو وہ کبھی اس احساس سے خالی نہیں ہو سکتا کہ اسے اپنی زندگی کے سارے اعمال کے لیے، خیالات کے لیے، خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، اس کو مرنے کے بعد یہ حساب دینا ہے کہ دنیا میں اس نے کیا کیا؟ کیا کہا اور سنا؟ کن طریقوں سے زندگی بسر کی؟ کن مشاغل میں اپنی قوتیں اور قابلتیں صرف کیں؟ کن ذرائع سے کمایا؟ اور کن راہوں میں اپنے مال کو صرف کیا؟ اور کن مقاصدکے لیے دنیا میں سعی وکوشش کی؟ مومن کبھی اس خیال میں مبتلا نہیں ہوتا کہ ہمیں بس مر کرمٹی ہو جانا ہے، اور دنیا سے اسی طرح گزر جانا ہے کہ دنیا کے افعال واعمال کا کوئی نتیجہ برآمد ہی نہ ہو گا۔ نہیں، وہ پختہ یقین رکھتا ہے کہ اس زندگی کے بعد پھر ایک زندگی ہے جس میں خدا کے سامنے حاضر ہو کر اسے اپنے ایک ایک کام کا، ایک ایک حرکت کا، اورایک ایک ذرّے کا حساب دینا ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
الاکلکم رَاعٍ وکلکم مسئول عنہ رعیتہٖ
’’خبردار تم میں سے ہرایک راعی ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘
رعیت سے مراد وہ سب کچھ ہے جو آدمی کے چارج میں دیا گیا ہے، چاہے وہ بال بچے ہوں یا نوکر اور ماتحت ہوں یا جانور اور اسباب زندگی ہوں۔ جس شے پر بھی کسی انسان کا حکم چلتا ہو اور جو کوئی اس کے تابع ہو وہی اس کی رعیت ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے دنیا میں کوئی بھی بے رعیت نہیں ہے۔ ہر ایک کسی نہ کسی دائرے میں راعی کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت گھر کی راعی ہے، شوہر بال بچوں کا راعی ہے، افسر ماتحتوں کا راعی ہے، حکمران پوری آبادی کا راعی ہے۔ بہرحال ہر انسان کسی نہ کسی طرح کا ضرور راعی ہے، اور کوئی نہ کوئی اس کے چارج میں ضرور ہے۔ اسی رعیت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کو متنبہ کرتے ہیں کہ خبردار ہو، تم اپنی رعیت کے ذمہ دار ہو، اور تمہیں اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہو گی کہ تم نے اپنی رعیت پر اختیارات کس طرح استعمال کیے۔ یہ عقیدہ مسلمان کی زندگی کو ایک ذمہ دارانہ زندگی بناتا ہے۔ مسلمان کبھی اس طرح کی زندگی بسر نہیں کر سکتا کہ وہ جو چاہے کھائے جوچاہے پہنے، جن مشاغل میں چاہے اپنی قوتیں اور اپنا وقت صرف کرتا رہے، جدھر خواہشاتِ نفس لے جائیں اُدھر آزادی سے بڑھتا چلا جائے۔ وہ کوئی چھوٹا ہوا جانور نہیں ہوتا کہ جس کھیت میں چاہے گھس جائے، جہاں ہرا چارہ نظر آئے منہ مار دے اور جس راستے کی طرف منہ اٹھ جائے، اسی پر دوڑنے لگے۔ مسلمان کی زندگی کی صحیح مثال وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ
مثل المؤمن ومثل الایمان کمثل الفرس فی اٰخیتہٖ یجول ثم یرجع اِلٰی اٰخیتہٖ ۵
’’مسلمان اور ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے کھونٹے سے بندھا ہوا گھوڑا ہوتا ہے کہ چاہے وہ کتنی ہی گردشیں اور جولانیاں دکھائے، بہرحال اس کے گلے کی رسی اسے مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد اپنے کھونٹے کی طرف پلٹ جائے۔‘‘
مسلمان جب ایمان وطاعت کے کھونٹے سے بندھا ہے تو رسی کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، بہرحال وہ ایک خاص دائرے کے اندر ہی اندر گھوم پھر سکتا ہے، اس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتا۔ وہ اپنی ساری قوتیں اور کوششیں اسی حد کے اندر صرف کر سکتا ہے جو خدا اور رسول نے مقرر کر دی ہیں۔ اس کی ساری دلچسپیاں، ساری تفریحیں، ساری سرگرمیاں اور تمام کاروائیاں مقررہ حدود کے اندر ہی محدود رہیں گی۔ ان حدود سے باہر جانے کی وہ جرأت نہیں کر سکتا۔

اسلام کی اس مختصر تشریح کے بعد اب میں عرض کروں گا کہ ہم دینِ اسلام کے خادم اورکارکن کیا چاہتے ہیں۔
ہماری دعوت سب لوگوں کو یہ ہے کہ وہ اسلام کو جس کی حقیقت یہ ہے، اچھی طرح جانچ کر، پرکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ وہ اسے اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں یا نہیں، جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، اسلام پیدائش سے حاصل نہیں ہوتا، نسل اور نسب سے نہیں مل جاتا ، پس یہ ضروری ہے کہ اس سوال کو آپ کے سامنے رکھا جائے، اور آپ سے صاف صاف پوچھا جائے کہ آیا فی الواقع آپ اُسے برضا ورغبت قبول کرتی ہیں یا نہیں؟
آپ اس کی عائد کردہ پابندیوں کو اٹھانے پر راضی ہیں یا نہیں؟ آپ کو ایمان کے کھونٹے اور اطاعت کی رسی سے بندھ جانا منظور ہے یا نہیں؟ اگر کسی کو یہ دین پسند نہ ہو اور اسلام کے اصول وحدود کے اندر رہنا گوارا نہ ہو تو اسے پورا اختیار ہے کہ وہ اسے چھوڑ دے، لیکن چھوڑنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صاف صاف اُسے رد کر دے، اپنا نام بدلے، اپنا تعلق مسلمان سوسائٹی سے منقطع کر لے، اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ دے اور پھرآزادی کے ساتھ جس راہ پر جانا چاہے جائے۔ اپنے نئے مسلک کے مطابق جونام پسند ہو، اُسے اختیار کرے اورجو سوسائٹی اُسے مرغوب ہو اس میں شامل ہو جائے یا اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ لے کر کوئی نئی سوسائٹی بنائے۔ بہرحال یہ فریب اور یہ مسخرا پن اب ختم ہونا چاہیے جو آج کل لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے کہ اسلام پسند بھی نہیں ہے، اس کی پیروی پرراضی بھی نہیں ہیں، خیال اور عمل میں اُسے چھوڑ کر دوسرے طریقے اختیار بھی کر چکے ہیں، مگر اصرار ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کہلائے جانے پر ہی مصر نہیں ہیں بلکہ اسلام کے علمبردار اور اس کے مفتی بھی بنے پھرتے ہیں۔ یہ کھیل بہت دنوں کھیلا جا چکا، اب ہم اسے چلنے نہیں دیں گے۔ اسی طرح یہ منافقانہ رویہ بھی ختم ہو جانا چاہیے کہ اسلام کی جو چیزیں اپنے مفاد اور اغراض کے مطابق نظر آئیں وہ تو قبول کر لی جائیں اور جوچیزیں خواہش نفس کے مطابق نہ ہوں انہیں رد کر دیا جائے یہ افتُومِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبعْضٍ{ ترجمہ: کیاتم کتاب کے کچھ حصہ کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو۔ } کا مصداق ہے جس کا طعنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہودیوں کو دیا گیا تھا کہ کتاب الٰہی سے اپنی پسند کی چیزوں کو تو لے لیتے ہیں اور جوپسند نہ ہوں انہیں رد کر دئیے ہیں۔ یہ نفس پرستی اور خواہش کی بندگی کا جعلی سکہ اب ایمان کے نام سے نہیں چل سکتا۔ کسی شریف آدمی کے لیے بھی یہ جعل سازی اور فریب کاری باعزت نہیں ہے کہ اپنے مطلب کے لیے تو وہ مسلمان ہو اور اسلام کے نام پر اپنے حقوق مانگے مگر اسلام کی پیروی کے لیے وہ مسلمان نہ ہو۔ ہم ہر شخص کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں اور اس کا دو ٹوک جواب چاہتے ہیں کہ تمہیں اسلام اپنے طریقِ زندگی کی حیثیت سے پسند ہے یا نہیں؟ پسند نہیں ہے تو براہِ کرم صاف انکار کرو اور ملت کے دائرے سے باہر ہو جائو، اور اگر پسند ہے اور فی الحقیقت تم مسلمان رہنا چاہتے ہو تو سچے دل سے اُسے قبول کرو۔ اسلام کے ایک جز یا چند اجزاء کو نہیں بلکہ پورے اسلام کو لو، سیدھی طرح اطاعت کا رویہ اختیار کرو اور اسلام کو اپنا دین مان لینے کے بعد پھر آزادی کا دعویٰ مت کرو۔ مسلمان ہونے کے بعد کسی کو یہ کہنے کا حق رہتا ہی نہیں کہ ہم اپنی عقل اور اپنی پسند کے مطابق جو طریقے چاہیں گے اختیار کریں گے۔ اسلام اس آزادی کو آپ کا حق نہیں مانتا۔
یہ بات ہمیں صرف مردوں ہی سے نہیں کہنی ہے، بلکہ عورتوں سے بھی یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں۔ ہم عورتوں سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی شخصیتوں کو مردوں کی شخصیتوں میں گم نہ کر دیں۔ اپنے دین کو مردوں کے حوالے نہ کریں۔ وہ مردوں کا ضمیمہ نہیں ہیں ، ان کی اپنی ایک مستقل شخصیت ہے۔ عورتوں کو بھی مردوں ہی کی طرح خدا کے رو برو پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال وافعال کا خود حساب دینا ہے۔ قیامت کے روز ہر عورت اپنی ہی قبر سے اٹھے گی۔ اپنے باپ یا شوہر یا بھائی کی قبر سے نہیں اٹھے گی۔ اپنے اعمال کا حساب دیتے وقت وہ یہ کہہ کر نہ چھوٹ جائے گی کہ میرا دن میرے مردوں سے پوچھو، اپنے طریقِ زندگی کی وہ خود ذمہ داری ہے، اور اُسے خدا کے سامنے اس بات کی جواب دہی کرنی ہو گی کہ وہ جس طریقہ پر چلتی رہی کیا سوچ کر چلتی رہی۔ لہٰذا ہم عورتوں کا سوال مردوں کے سامنے نہیں خود عورتوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ اپنی راہِ زندگی کا فیصلہ تم خود کرو اور اس امر کا لحاظ کیے بغیر کرو کہ تمہارے مردوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام تمہیں اپنے دین کی حیثیت سے پسند ہے یا نہیں؟ اس کے اصول، اس کے حدود، اس کی عائد کی ہوئی پابندیاں، اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داریاں، غرض ساری ہی چیزیں دیکھ کر فیصلہ کرو کہ وہ تمہیں قبول ہے یا نہیں؟ اگر ان سب چیزوں کے ساتھ اسلام قبول ہے تو سچے دل سے اس کی پیروی کرو، ادھورے نہیں بلکہ پورے اسلام کو اپنا دین بنائو اورپھر جان بوجھ کر اس سے انحراف نہ کرو اور اگر قبول نہیں ہے تو شرافت اور سچائی اسی میں ہے کہ صاف صاف اور اعلانیہ اسے چھوڑ دو اور اس کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔
یہ بات ایک مدت سے ہم کہہ رہے ہیں، اور آپ کو اگر ہمارے لٹریچر سے کچھ واقفیت ہو اور آپ اس سے مطلع ہوں تو آپ بھی اس بات کو جانتی ہوں گی کہ ہم نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں اور رفیقوں سے یہی کہا ہے کہ آپ گھر کی عورتوں، مائوں، بہنوں، بیویوں، بیٹیوں پر اسلام کی تبلیغ ضرور کریں، مگر خدا کے لیے انہیں قوامیت کے زور سے اپنے مسلک کی طرف نہ کھینچیں۔ انہیں سوچنے کی، رائے قائم کرنے کی پوری آزادی دیں۔ تبلیغ کا حق بس اتنا ہی ہے کہ آپ اسلام کے مطالبے کو ان کے سامنے رکھیں۔ اس کے بعد عورتوں کو اس امر کا فیصلہ خود کرنے کی آزادی ہونی چاہیے کہ انہیں یہ مطالبہ قبول ہے یا نہیں۔

اس طرح سوچ سمجھ کر جو خواتین بطور خود اسلام کو اپنا دین بنائیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے کرنے کے کام کیاہیں۔

یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں، اور اپنے اندر سے جاہلیت کی ایک ایک چیز کوچُن چُن کر نکالیں۔ اپنے اندر یہ تمیز پیدا کریں کہ کیا چیزیں اسلام کی ہیں اور کیا چیزیں جاہلیت کی ہیں۔ پھراپنی زندگی کا جائزہ لیں اور بے لوث محاسبہ کرکے دکھیں کہ اس میں جاہلیت کا تو کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔ ایسے جو اثرات بھی ہیں ان سے اپنی زندگی کو پاک کیجئے اور اپنے خیالات کو، اپنی معاشرت کو، اپنے اخلاق کو اور اپنے پورے طرز عمل کو دین کے تابع کر دیجئے۔

یہ ہے کہ گھر کی فضا کو درست کریں۔ اس فضا میں پرانی جاہلیت کی جو رسمیں چلی آ رہی ہیں۔ ان کو بھی نکال باہر کریں اور نئے زمانہ کی جاہلیت کے جو اثرات انگریزی دور میں ہمارے گھروں میں داخل ہو گئے ہیں انہیں بھی خانہ بدر کریں۔ اس وقت ہمارے گھروں میں پرانے زمانہ کی جاہلیت اور نئے زمانہ کی جاہلیت کا ایک عجیب مرکب رائج ہے۔ ایک طرف تو وہ ’’روشن خیالی‘‘ ہے جو ہماری مسلمان خواتین کو فرنگیت زدہ شکل میں لا رہی ہے اور دوسری طرف اسی روشن خیالی کے ساتھ ساتھ پُرانے زمانہ کے جاہلانہ تخیلات، مشرکانہ عقیدے اور غیر اسلامی رسمیں بھی ہماری معاشرت میں برقرار ہیں۔ اب جن خواتین کو اپنے ایمانی فرائض کا احساس ہو جائے ان کا کام یہ ہے کہ پرانی جاہلیت کی رسموں اور تصورات کو بھی چن چن کر گھروں سے نکالیں اور نئے زمانہ کی جاہلیت کے ان مظاہر کا بھی خاتمہ کریں جو فرنگی تعلیم اور انگریزی تہذیب کی اندھی تقلید کی بدولت گھروں میں گھس آئے ہیں۔

یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اسلامی طرز پر تربیت دیں۔ ہماری نسلیں اس لحاظ سے بڑی بدقسمت ہیں کہ گھروں کے اندر کبھی قرآن کی آواز ان کے کانوں میں نہیں پڑتی اور نہ وہ اپنی آنکھوں سے گھر کے لوگوں کو کبھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ہم اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ بچپن میں ہم اپنے گھروں میں قرآن کی آواز سنتے تھے اور اپنے بڑوں کو نماز پڑھتے دیکھتے تھے۔ ہمارے گرد وپیش بہرحال کچھ نہ کچھ آثار دین کے باقی تھے لیکن موجودہ نسل کی یہ بدقسمتی انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ گھروں کی جس فضا میں وہ پرورش پا رہی ہے اس میں نہ قرآن کی آواز کبھی گونجتی ہے، نہ نماز کا منظرکبھی سامنے آتا ہے۔ اگر ہمارے گھروں کا یہی حال رہا اور نسلیں اسی طرح غلط تربیت حاصل کرتی رہیں تو جب زندگی کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں آئے گی اس وقت شائد اسلام کا نام بھی باقی نہ رہ سکے گا۔ آپ اب اس صورت حال کو ختم کریں اور اس فکر میں لگ جائیں کہ گھروں کی معاشرت میں، روزہ مرہ کے رہن سہن میں، زندگی کے مختلف معمولات میں اسلام نمودار ہو، اور وہ ہمارے بچوں کوآنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا نظرآئے۔ بچے اسے دیکھیں، اس کا مزہ چکھیں اور اس سے اثر قبول کریں۔ ان کے کانوں میں بار بار قرآن کی آواز پڑے۔ وہ دن میں پانچ مرتبہ گھر میں نماز کا منظر دیکھیں، پھر وہ اپنی فطرت کے تحت اپنے بڑوں کی تقلید کریں، اور انہیں نماز پڑھتا دیکھ کر خود بخود ان کی نقل اتاریں۔ وہ توحید کا پیغام سنیں، وہ عبادت کا مُدعا سمجھیں، اسلام کا نقش ان کے دلوں پر پائم ہو، ان کی عادات درست ہوں، ان کے اندر اسلامی ذوق پیدا ہو۔ نئی نسل کے لیے یہ سب کچھ ہمیں درکار ہے، پس وہ تمام عورتیں جو اسلام کو قبول کریں انہیں چاہیے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی گودوں اوراپنے گھروں کو مسلمان بنائیں، تاکہ ان میں ایک مسلمان نسل پروان چڑھ سکے۔

یہ ہے کہ اپنے گھر کے مردوں پراثر ڈالیں، اور اپنے شوہروں، باپوں، بھائیوں اور بیٹوں کو اسلام کی زندگی کی طرف بلائیں۔ عورتوں کو نہ معلوم یہ غلط فہمی کہاں سے ہو گئی ہے کہ وہ مردوں کو متاثر نہیں کر سکتیں، حلانکہ واقعہ یہ ہے کہ عورتیں مردوں پر بہت گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔ مسلمان لڑکی اگر یہ کہنے لگے کہ اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر رضی اللہ عنہٗ کی شکل پسند ہے، اور چرچل اور ٹرمین کی شکل پسند نہیں ہے، تو آپ دیکھیں گی کہ کس طرح مسلمان نوجوانوں کی شکلیں بدلنی شروع ہو جائیں گی۔ مسلمان عورت اگر کہنے لگے کہ اسے کالے ’’صاحب لوگوں‘‘ کا طرزِ زندگی مرغوب نہیں ہے بلکہ اُسے اسلامی زندگی مرغوب ہے جس میں نماز ہو، روزہ ہو، پرہیز گاری اور حسنِ اخلاق ہو، خدا کا خوف اور اسلامی آداب وتہذیب کا لحاظ ہو تو آپ کی آنکھوں کے سامنے مردوں کی زندگیاں بدلنے لگیں گی۔ مسلمان بیوی اگر صاف صاف کھول کر کہہ دے کہ اُسے حرام کی کمائی سے سجائے ہوئے ڈرائینگ روم پسند نہیں ہیں، رشوت کے روپے سے عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنا گوارا نہیں ہے، بلکہ وہ حلال کی محدود کمائی میں روکھی سوکھی روٹی کھا کر جھونپڑے میں رہنا زیادہ عزیز رکھتی ہے، تو حرام خوری کے بہت سے اسباب ختم ہو جائیں گے اور کتنی ہی رائج الوقت خرابیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔
اسی طرح پراگروہ تمام بہنیں جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے دین تسلیم کر لیا ہے، اصلاح احوال کی مہم شروع کر دیں تو وہ اپنے اعزہ واقرباء، اپنے خاندان کے لوگوں اور اپنے میل ملاپ رکھنے والے گھرانوں کو بھی بہت سی خرابیوں سے بچا سکتی ہیں اور انہیں نئی اور پرانی جاہلیتوں سے پاک کر سکتی ہیں۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ شیریں طریقے سے اپنے عزیزوں اور ملنے جُلنے والوں کے سامنے جاہلیت کے طریقوں پر تنقید کریں، انہیں اسلام کے احکام سمجھائیں، ان کو اسلام کے حدود سے آگاہ کریں اور خود بھی اسلامی حدود کی پابندی کرکے اپنا صحیح نمونہ ان کے سامنے پیش کریں۔ یوں اگر کام کیا جائے تو ہماری سوسائٹی کا پورا ڈھانچہ درست ہو سکتا ہے۔

اب اگر آپ نے اسلام فی الواقع اپنے لیے پسند کر لیا ہے تو آپ کے سامنے یہ سوال دو ٹوک فیصلہ کے لیے آن کھڑا ہو گا کہ آیا آپ جاہلیت کی پیروی اور اسلام سے بغاوت میں اپنے غلط کار مردوں کی رفاقت کرنے کے لیے آمادہ ہیں یا نہیں؟ اگر آپ نے واقعی اسلام کو پسند کر لیا ہے، تو پھر آپ کو اس سوال کا جواب لازماً نفی میں دینا ہو گا۔ آپ کے لیے یہ ہرگز مناسب نہ ہو گا کہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے آپ خود اپنی عاقبت خراب کر لیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
ان شرالناس منزلۃ یوم القیامۃ عبد اذھب اٰخرتہٗ لدنیا غیرہٖ
’’قیامت کے روز بدترین حال اس شخص کا ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی عاقبت خراب کر لی۔‘‘
لہٰذا آپ اپنے مردوں کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرنے پر ہرگز آمادہ نہ ہوں۔ مسلمان خاتون ہونے کی حیثیت سے آپ شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے، ہر ایک پر یہ واضح کر دیں کہ ہم اسلام کے اتباع میں آپ کی رفاقت کر سکتی ہیں لیکن اگر آپ کو اسلام کے حدود کی پابندی گوارا نہیں ہے تو آپ جانیں اور آپ کا کام، ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔ آپ کی دنیا کے لیے اپنی آخرت بگاڑنے پر ہم تیار نہیں ہیں۔
دوسری طرف جن خواتین کے شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے خدا اور رسول کی پیروی کرنے والے ہوں، ان کا کام یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ پورا تعاون کریں اور تکلیفوں میں ان کا ساتھ دیں۔ ظاہر بات ہے کہ جو شخص اسلام کی حدود کے اندر رہنے کا فیصلہ کرے گا وہ دولت کے کمانے میں ہر طرح کے مال پر ہاتھ نہیں مار سکتا، وہ حرام خوری نہیں کر سکتا۔ وہ حلال طریقوں سے محدود کمائی کرکے عیاشی کے سامان فراہم نہیں کر سکتا، پس مسلمان خاتون کو حلال کی تھوڑی کمائی پر قناعت کرنی چاہیے۔ اسلام پر چلنے والے باپوں، شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں پر دبائو نہیں ڈالنا چاہیے کہ وہ ان کے لیے عیش وعشرت اور لطف ولذت کے سامان فراہم کریں۔ اسی طرح دین حق کی اطاعت اور اس کو قائم کرنے کی کوشش میں مردوں کو بہت سی تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور مسلمان خواتین کا فرض ہے کہ ان تکالیف میں اپنے حق پرست مردوں کی سچی رفیق ثابت ہوں۔

اس وقت ہمارے سامنے ایک بہت بڑے کام کا پروگرام ہے ہمیں پاکستان میں اسلام کی حکومت قائم کرنا ہے، اور یہ کام بہت بڑی جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷؁ء سے پہلے تک اس ملک کے رہنے والے خود مختار نہ تھے، لیکن ۱۴ اگست کے بعد ہمارے ملک کی صورتِحال بالکل بدل گئی ہے، اب اس ملک کے لوگ اپنے مستقل کا خود فیصلہ کرنے میں پوری طرح مختار ہیں۔ یہاں کے باشندوں کو اب یہ طے کرنا ہے کہ وہ اپنے لیے کس طریقِ زندگی کو، کس اصولِ اخلاق کو اور کس نظامِ حکومت کو پسند کرتے ہیں؟ اس سلسلہ میں آپ عنقریب دیکھیں گی کہ اس ملک میں ایک شدید کشمکش برپا ہونے والی ہے۔ ایک طرف وہ نام نہاد مدعیانِ اسلام ہیں جن کو صرف اسلام کا نام باپ دادا سے ورثہ میں ملا ہے، لیکن اس کو طریق زندگی کی حیثیت سے انہوں نے نہ قبول کیا ہے اور نہ قبول کرنے پر تیار ہیں۔ اسلام کے نام پر جو حقوق حاصل ہو سکتے ہیں انہیں تو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن جن پابندیوں کا اسلام مطالبہ کرتا ہے ان سے وہ خود بھی آزاد رہنا چاہتے ہیں اور ملک کو بھی آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اوپر کافرانہ حکومت قائم رکھنے اور کافرانہ قوانین جاری رکھنے کے ارادے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے مقابلہ میں وہ سب لوگ ہیں جو اسلام کو اپنے طریقِ زندگی کی حیثیت سے پسند کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اس ملک میں اسلام کی حکومت قائم ہو اور اسلام کا قانون جاری ہو۔ ان دونوں طاقتوں کے درمیان عنقریب ایک کشمکش رونما ہونے والی ہے۔ اس موقع پر جس طرح مردوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اسلام نما کفر کا ساتھ دیں گے یا حقیقی اسلام کی حمایت کریں گے، اسی طر ح مسلمان خواتین کو بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ اپنا وان کس پلڑے میں ڈالیں گی۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کشمکش میں کیا کیا صورتیں پیش آئیں۔ بہرحال بہنوں اور مائوں سے میں درخواست کروں گا کہ اپنے مستقبل کے طرز عمل کا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ اگر وہ اسلام کو دل سے چاہتی ہیں تو انہیں اس کشمکش میں اپنا پورا وزن حقیقی اسلام کے پلڑے میں ڈالنا ہو گا۔

یہ دور چونکہ جمہوریت کا دور ہے اس لیے حکومت کے مسلک کا انحصار عوام کی رائے پر ہے، حکومت کے اختیارات عوام کے دیے ہوئے اختیارات ہیں۔ پس حکومت اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتی جب تک ہمارے عوام واقعی مسلم نہ ہوں۔ عام لوگ اگر اسلام کا کلمہ نہ پڑھیں اورخدا کو اپنا حاکم ومالک نہ مانیں اور اسلام کو خود اپنے طریقِ زندگی کی حیثیت سے قبول نہ کریں تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ حکومت کلمہ پڑھ دے، اور خدا کو حاکم مان کر اس کے دین کی پابند ہو جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام جو مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں، اب جان بوجھ کر کلمہ پڑھیں اور نظامِ اسلامی کا اپنی زندگی کے لیے برضا ورغبت انتخاب کریں۔ جب وہ یوں کلمہ پڑھ کر اسلام کو اختیار کر لیں گے تو ان کی رائے سے جو حکومت بنے گی وہ حکومت بھی کلمہ گو حکومت ہو گی اور خدا کے آگے جھکنے والی اور اس کے قانون کو جاری کرنے والی ہو گی۔

اس سلسلہ میں چند باتیں مجھے آپ سے خاص طور پر کہنی ہیں۔ اسلامی حکومت کے متعلق عام طور پر یہ غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں کہ اگر کہیں اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو ایک بڑا تاریک دور ملک پر مسلط ہو جائے گا اور قوم کی ساری ترقی رُک جائے گی۔ خصوصیت سے یہ چیز بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی نظام میں عورتوں کی پوزیشن گر جائے گی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر یہاں اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو وہ عورتوں کے لیے بھی ویسی ہی برکت ثابت ہو گی جیسی مردوں کے لیے ہے۔ میں مختصر طور پر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسلامی حکومت میں آپ کی کیا پوزیشن ہو گی۔
۱۔ اسلام موجودہ زمانہ کی جمہوریت سے سینکڑوں برس پہلے عورتوں کے حق رائے دہی کو تسلم کر چکا ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے کہ جب عورت کی مستقل شخصیت ہی سے انکارکیا جاتا ہے اور کہا جاتا تھا کہ عورت بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ شیطان کی ایک ایجنٹ ہے۔ ایسے تاریک دور میں اسلام نے سب سے پہلے عورت کی شخصیت کا اثبات کیا اور اُسے اجتماعی معاملات میں رائے دینے کا حق بخشا۔ اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہو گا جس طرح ہر بالغ مرد کو یہ حق دیا جائے گا۔
۲۔ اسلام عورتوں کو وراثت اور مال وجائیداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق دینا ہے۔ ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنی ملکیت کو صنعت وحرفت میں لگائیں اور اس سے جو نفع ہو اس کی بلا شرکت غیرے مالک ہوں، بلکہ اگر ان کے پاس وقت بچتا ہوں تو ان کو اس کا بھی حق ہے کہ بطور خود کوئی کاروبار کوئی محنت مزدوری کریں اور اس کی آمدنی کی ملکیت پوری طرح انہیں حاصل ہو۔ ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کے املاک پر کسی قسم کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
۳۔ اسلامی حکومت میں ناقص ازدواجی قانون جو انگریزی دور میں یہاں رائج رہا ہے اور جس نے بہت سی مسلمان عورتوں کے لیے دنیا کی زندگی کو دوزخ کی زندگی بنا رکھا ہے، بدل دیا جائے گا اور اسلام کا حقیقی قانونِ ازدواج جاری کیا جائے گا، جو عورتوں کے حقوق ومفاد کی پوری پوری حفاظت کرتا ہے۔ یہ نام نہاد شریعت بل جو ابھی ابھی پاکستانی پنجاب کی اسمبلی میں پاس کیا گیا ہے۔ یہ پوری طرح شریعت کے قانون پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ یہ قانونِ شریعت کی ایک مسخ شدہ شکل ہے میری کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ اگر آپ کے مطالعہ میں آئی ہو تو آپ پر واضح ہو چکا ہو گا کہ مردوں اورعورتوں، دونوں کے جملہ حقوق ومفاد کی حفاظت اسلام کے قانون کے سوا اور کسی قانون میں نہیں ہے۔ اسلام کی حکومت میں ایسا ازدواجی قانون نافذ ہو گا جو آپ کی ساری شکایات ختم کر دے گا۔
۴۔ اسلامی حکومت میں عورتوں کو تعلیم سے محروم نہیں رکھا جائے گا، جیسا کہ غلط فہمیاں پھیلانے والے لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے، بلکہ ان کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ انتظام یقینا آج کل کے گرلز اسکولوں اور گرلز کالجوں کے طرز پر نہ ہو گا اور مخلوط تعلیم کے اصول پر تو ہرگز نہیں ہو گا بلکہ اس میں اسلامی حدود کی پابندی کی جائے گی۔ مگر بہرصورت ہر شعبے میں اونچے معیار کی زنانہ تعلیم کے انتظامات ضرور کیے جائیں گے۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ اسلام کی حدود کو اگر برقرار رکھنا ضروری ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہگرلز میڈیکل کالج چلائے جا سکیں؟ میں کہتا ہوں کہ اگر حکومت اسلام کا کلمہ پڑھ لے اور اسلام کے اصول پر کام کرنے کا فیصلہ کر لے تو ایسے ذرائع فراہم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے جن سے اسلامی طرز کا ایک زنانہ میڈیکل کالج قائم کیا جا سکے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ماہر اور تجربہ کار مسلمان لیڈی ڈاکٹرز جو ملک میں موجود ہیں، عورتوں کو ڈاکٹری تعلیم دینے پر مامور کر دیں، یا اگر بالفرض وہ فراہم نہ ہو سکیں تو ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اپنی قوم میں سے سنِ رسیدہ ڈاکٹروں کو جن کی سیرت قابل اعتماد ہو منتخب کر لیں اور ان کے سپرد یہ خدمت کریں کہ چند سال کے اندر اچھی لیڈی ڈاکٹرز کا ایک معتدبہ گرہ تیار کر لیں۔ پھر ہم عورتوں کو مردوں سے تعلیم دلانے کی ضرورت سے بے نیاز ہو جائیں گے۔
اسی طرح ہر دوسرے شعبے کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا بھی انتظام کیا جا سکتا ہے بغیر اس کے کہ اسلامی حدود توڑنے کی کوئی ضرورت پیش آئے۔
۵۔ ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے، اور یہ بھی انشاء اللہ اسلامی حدود کو باقی رکھتے ہوئے ہو گا، میں بارہا اپنے رفقا سے کہہ چکا ہوں کہ اب قومیت کی لڑائیاں حد سے بڑھ چکی ہیں اور انسان درندگی کی بدتر سے بدتر شکلیں اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا سابقہ ایسی ظالم طاقتوں سے ہے جنہیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاند جانے میں تامل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آ جائے تو نہ معلوم کیا کیا بربریت ان سے صادر ہو۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے تیار کریں اور ہر مسلمان عورت اپنی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو۔ انہیں اسلحہ کا استعمال سیکھنا چاہیے، انہیں تیرنا آتا ہو، وہ سواری کر سکتی ہوں، سائیکل اورموٹر چلا سکیں، فسٹ ایڈ جانتی ہوں پھر صرف اپنی ذاتی حفاظت ہی کی تیاری نہ کریں بلکہ ضرورت ہو تو جنگ میں مردوں کا ہاتھ بٹاسکیں۔ ہم یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اسلامی حدود کے اندر اندر کرنا چاہتے، ان حدود کو توڑ کر نہیں کرنا چاہتے۔ قدیم زمانہ میں بھی مسلمان عورتوں نے اسلحہ کے استعمال اورزدافعت کے فنون کی تربیت حاصل کی تھی، لیکن انہوں نے پُورے فنون سپہ گری اپنے باپوں، بھائیوں اور شوہروں سے سیکھے تھے، اور پھر عورتوں نے عورتوں کو تربیت دی تھی۔ اب بھی یہ صورت بآسانی اختیارکی جا سکتی ہے کہ فوجی لوگوں کو اپنی محرم خواتین کی تربیت پرمامور کیا ہو اور پھر جب عورتیں کافی تعداد میں تیار ہو جائیں توان کو دوسری عورتوں کے لیے معلم بنا دیا جائے۔

یہ چند امور میں نے مثال کے طور پر بیان کیے ہیں، جن سے آپ اندازہ کر سکتی ہیں کہ اسلامی حکومت میں عورت کومحض گڑیا بنا کر نہیں رکھا جائے گا جیسا کہ بعض نادانوں کا گمان ہے، بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ ترقی کا موقع دیا جائے گا۔ بہرحال یہ ضرور سمجھ لیجئے کہ ہم عورت کو عورت ہی رکھ کر عزت کا مقام دینا چاہتے ہیں، اسے مرد بنانا نہیں چاہتے۔ ہماری تہذیب اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک وہ ایک مصنوعی مرد بن کرمردوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔ مگر ہماری تہذیب عورت کو ساری عزتیں اور تمام حقوق عورت ہی رکھ کر دیتی ہے اور تمدن کی انہی ذمہ داریاں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔ اس معاملہ میں ہم اپنی تہذیب کو موجودہ مغربی تہذیب سے بدرجہا زیادہ افضل اور اشرف سمجھتے ہیں اور نہایت مضبوط دلائل کی بنا پر یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہماری تہذیب کے اصول صحیح اور معقول ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ صحیح اور پاکیزہ چیز کو چھوڑ کر ہم غلط اور گندی چیز کو قبول کریں، موجودہ زمانہ کی مخلوط سوسائٹی سے ہمارا اختلاف کسی تعصب یا اندھی مخالفت کا نتیجہ نہیں۔ ہم پوری بصیرت کے ساتھ اپنی اور آپ کی اور پوری انسانیت کی اور تہذیب وتمدن کی فلاح وبہبود اسی میں دیکھتے ہیں کہ اس تباہ کن طرزِ معاشرت سے اجتناب کیا جائے۔ ہمیں صرف عقلی دلائل ہی سے اس کے غلط ہونے کا یقین نہیں ہے بلکہ تجربہ سے اس کے نتائج جو ظاہر ہو چکے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں کے اخلاق وتمدن پر اس کے جواثرات مرتب ہو چکے ہیں، ان کو ہم جانتے ہیں، اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ ہماری قوم اس تباہی کے گڑھے میں گرے جس کی طرف ہمارے فرنگیت زدہ اونچے طبقے اسے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اخلاق کھو چکے ہیں اوراب ساری قوم کے اخلاق برباد کرنے کے درپے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری کوشش یہ ہے کہ ہماری قوم اور ہمارا ملک جو کچھ بھی ترقی کرے، اسلامی اخلاق کے دائرے میں رہ کر کرے، مگر اپنی اس کوشش میں ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب ہمارے بھائیوں کے ساتھ ہماری بہنوں کی مجموعی طاقت بھی ہماری تائید پر ہو۔

اب یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ آپ فرنگیت چاہتی ہیں یا اسلام؟ ان دونوں میں سے ایک ہی کا آپ کو انتخاب کرنا ہو گا۔ دونوں کو غلط ملط کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے۔ اسلام چاہتی ہوں تو پورے اسلام کو لینا ہو گا، اوراپنی پوری زندگی پر اسے حکمراں بنانا ہو گا، کیونکہ وہ تو صاف کہتا ہے کہ اُدْخِلُوْ فِی السِّلْمِ کَآفَّۃٌ ’’تم پورے اندر آ جائو اپنی زندگی کا کوئی ذرا سا حصہ بھی میری اطاعت سے مستثنیٰ نہ رکھو۔‘‘ اگر یہ کلی اطاعت منظور نہ ہو اور کچھ فرنگیت ہی کی طرف میلان ہو تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ دعوائے اسلام کو ملتوی رکھیں اور جس راہ پر چلیں، نام بھی اسی کا لیں، آدھا اسلام اور آدھا کفر نہ دنیا ہی میں کسی کام کی چیز ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے مفید ہونے کا کوئی امکان ہے اور ہم اس مرکب پر اسلام کا لیبل ایک جھوٹ بھی ہے۔

maududi