اسلام نے عورت کو صرف عزت نہیں دی بلکہ آزادی، تحفظ اور خودمختاری کے بنیادی حقوق بھی عطا کیے۔ تاہم، جدید دور میں “عورت کی آزادی” کا مفہوم مغربی نظریات سے متاثر ہو کر اپنی اصل شکل کھو چکا ہے۔ اس صورتِ حال میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکر ایک واضح، متوازن اور عملی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
مولانا مودودیؒ: ایک تعارف
مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کے ممتاز اسلامی مفکر، مفسر اور مصنف تھے۔ انہوں نے اسلام کو محض عبادات کا دین نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ زندگی کے طور پر پیش کیا۔ ان کے مطابق عورت معاشرتی ڈھانچے کا ایک اہم اور فعال جز ہے، جسے مساوی احترام، تعلیم اور کردار سازی کے مواقع ملنے چاہئیں۔
اسلام کا عورت کی آزادی سے کیا مطلب ہے؟
اسلام عورت کو وہ آزادی دیتا ہے جو اس کی فطرت، عزت اور کردار کو مجروح کیے بغیر ہو۔ اس آزادی میں شامل ہیں:
-
تعلیم حاصل کرنے کا حق
-
نکاح میں رضامندی کا اختیار
-
وراثت میں حصہ
-
عزت دار طریقے سے کام کرنے کی اجازت
مزید برآں، مولانا مودودیؒ نے زور دیا کہ عورت کی یہ آزادی ذمہ داری اور حدود کے ساتھ مشروط ہے، تاکہ معاشرے میں توازن برقرار رہے۔
بے لگام آزادی یا باحیاء وقار؟
آج کل “آزادی” کا مطلب اکثر حدود سے بے نیازی لیا جاتا ہے۔ تاہم، مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ اصل آزادی وہ ہے جو اللہ کے احکامات کے تحت ہو۔ وہ آزادی جس میں عورت اپنے آپ کو محفوظ، باوقار اور معاشرے کا کارآمد فرد سمجھے، اصل اسلامی آزادی ہے۔
مغربی نظریۂ آزادی پر مولانا کی تنقید
مولانا مودودیؒ نے مغربی دنیا میں عورت کی آزادی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق مغرب نے عورت کو آزادی کے نام پر اشتہارات، بازار اور تفریح کی اشیاء بنا دیا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں:
“عورت کو آزادی دے کر دراصل اسے مرد کی خواہشات کا شکار بنایا گیا ہے۔”
یہ آزادی، جو بظاہر خوبصورت لگتی ہے، درحقیقت عورت کو اس کی اصل شناخت سے دور کر دیتی ہے۔
خاندان اور گھر میں عورت کا کردار
اسلام میں عورت کا کردار صرف گھر کی چاردیواری تک محدود نہیں، لیکن خاندان میں اس کی حیثیت بنیادی ستون جیسی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے مطابق، عورت نسلوں کی تعمیر میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے گھریلو کردار کو ایک باعزت ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، نہ کہ مجبوری۔
کیا عورت کام کر سکتی ہے؟
یقیناً، اسلام عورت کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے — بشرطیکہ وہ اسلامی اصولوں کا لحاظ رکھے۔ مولانا مودودیؒ اس بات کے قائل تھے کہ عورت تعلیم یافتہ ہو، اور اگر وہ معاشی سرگرمیوں میں شریک ہونا چاہے تو پردے، حیا، اور وقار کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا کر سکتی ہے۔
تعلیم: ایک مشترکہ حق
مولانا کے نزدیک، عورت کی تعلیم اتنی ہی اہم ہے جتنی مرد کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک تعلیم یافتہ ماں ایک صالح نسل کی پرورش کرتی ہے۔ لہٰذا، دینی و دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم عورت کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ معاشرے میں باوقار انداز میں کردار ادا کر سکے۔
معاشی کردار اور خودمختاری
حضرت خدیجہؓ کی مثال دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں بھی عورت نے کامیاب معاشی کردار ادا کیا ہے۔ مگر ان کے نزدیک یہ کردار، عورت کی عزت، حیا اور عفت کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
پردہ: رکاوٹ نہیں، تحفظ ہے
اپنی مشہور کتاب پردہ میں مولانا مودودیؒ نے وضاحت کی ہے کہ حجاب اور پردہ دراصل عورت کی عزت اور آزادی کا محافظ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“پردہ عورت کو قید نہیں کرتا بلکہ معاشرتی فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔”
پردے کی اہمیت کا مقصد صرف جسم چھپانا نہیں بلکہ کردار کو محفوظ رکھنا بھی ہے۔
اعتدال اور توازن کا پیغام
مولانا مودودیؒ کا مؤقف سختی پر مبنی نہیں بلکہ توازن پر مبنی ہے۔ وہ عورت کو:
-
عزت
-
تعلیم
-
کردار سازی
-
اور حدود میں رہتے ہوئے آزادی
کا مکمل حقدار سمجھتے ہیں۔
آج کے دور کے لیے سبق
جدید دور میں جب مغربی ثقافت کا غلبہ بڑھ رہا ہے، مولانا مودودیؒ کی فکر ہمیں ایک متوازن، باوقار اور محفوظ راہ دکھاتی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ:
-
عورت اور مرد، زندگی کے دو پہیے ہیں، جو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں
-
آزادی کے نام پر عورت کی فطرت اور عزت کو قربان کرنا دانشمندی نہیں
-
اسلامی اصولوں کے مطابق دی گئی آزادی، عورت کے لیے حقیقی تحفظ اور سکون کا باعث بنتی ہے
نتیجہ: اصل آزادی اسلام میں ہے
آخرکار، مولانا مودودیؒ کا پیغام یہ ہے کہ عورت کی اصل آزادی وہی ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق، عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا موقع دے۔ ایسی آزادی ہی عورت کو بااختیار بھی بناتی ہے اور معاشرے کو مستحکم بھی۔