Unlock the timeless wisdom of Syed Abul Ala Maududi's, now powered by cutting-edge AI.

آج کا سودی نظام: اسلام کی اصل روح کے خلاف

سودی نظام

دنیا بھر میں معاشی ترقی اور مالیاتی نظام ایک ایسے اصول پر قائم ہے جو اسلام کے بنیادی عقائد اور روح کے سراسر خلاف ہے — وہ ہے سود (ربا)۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ سودی نظام نہ صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ ہے بلکہ اجتماعی سطح پر بھی معاشرتی ناانصافی، غربت اور استحصال کو جنم دیتا ہے۔

اس مضمون میں ہم جائزہ لیں گے کہ اسلام سود کے بارے میں کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور کیوں آج کا مالیاتی نظام اسلامی روح سے متصادم ہے۔

اسلام میں سود کی ممانعت

اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے، جو انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط کرتا ہے۔ دینِ اسلام نے سود کو نہایت سخت الفاظ میں ممنوع قرار دیا ہے، کیونکہ یہ نظام انسانی ہمدردی، عدل اور معاشرتی توازن کے خلاف ہے۔

قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید میں سود کی حرمت پر واضح احکامات نازل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا ہے، اگر تم واقعی مؤمن ہو، چھوڑ دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔”
(سورۃ البقرہ: 278-279)

یہ واحد گناہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے، جو اس کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

احادیث کی روشنی میں

نبی کریم ﷺ نے سودی معاملات کو واضح طور پر حرام قرار دیا۔ ایک حدیث میں آتا ہے:

“سود کھانے والا، سود لکھنے والا، گواہ بننے والا اور اس میں مدد کرنے والا — سب برابر ہیں۔”

یہ حدیث سودی نظام میں شامل ہر فرد کو برابر کا گناہ دار ٹھہراتی ہے، خواہ اس کا کردار چھوٹا ہو یا بڑا۔

آج کے سودی نظام کی حقیقت

بدقسمتی سے، آج کا عالمی مالیاتی نظام مکمل طور پر سود پر مبنی ہے۔ چاہے بات ہو بینکوں کے قرضوں کی، کریڈٹ کارڈز کی، مائیکرو فنانس اسکیمز کی یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی — سب میں سود شامل ہے۔

بینکاری نظام کا کردار

بینک افراد، کاروباروں، اور حکومتوں کو سود پر قرض دیتے ہیں۔ وقت کے ساتھ، ان قرضوں پر سود بڑھتا چلا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں:

  • غریب اور متوسط طبقہ قرض تلے دب جاتا ہے۔

  • دولت اور وسائل چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔

  • معاشرتی ناہمواری میں اضافہ ہوتا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے

ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اور دیگر ادارے ترقی پذیر ممالک کو بھاری سود پر قرض دیتے ہیں۔ ان قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط منسلک ہوتی ہیں جو اکثر مقامی معیشت کو کمزور کر دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملکی خودمختاری بھی متاثر ہوتی ہے۔

سودی نظام اور اسلامی روح کا تصادم

اسلام ایک ایسا معاشی ماڈل پیش کرتا ہے جو انصاف، برابری اور ہمدردی پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس سودی نظام سرمایہ دارانہ لالچ کو فروغ دیتا ہے۔

معاشی انصاف کا فقدان

اسلام چاہتا ہے کہ دولت کا بہاؤ معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچے۔ مگر سودی نظام صرف امیروں کو مزید امیر بناتا ہے جبکہ غریب مزید مقروض ہو جاتا ہے۔

غربت میں اضافہ

سود پر لیا گیا قرض وقت کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔ غریب انسان اصل قرض کے ساتھ سود بھی ادا کرتا ہے، اور بالآخر اس کی معاشی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔

اخلاقی تباہی

سود ایک ایسا نظام پیدا کرتا ہے جس میں لالچ، خودغرضی اور دوسروں کے استحصال کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس سے معاشرے میں ہمدردی، بھائی چارہ اور عدل کی اقدار کمزور ہو جاتی ہیں۔

متبادل نظام: اسلامی معاشی ماڈل

اسلام صرف سود کی ممانعت ہی نہیں کرتا بلکہ ایک متبادل نظام بھی پیش کرتا ہے جو عدل، شراکت داری اور انسانی بھلائی پر مبنی ہے۔

مضاربہ اور مشارکہ

اسلامی بینکاری میں “مضاربہ” اور “مشارکہ” جیسے ماڈل شامل ہیں، جن میں نفع اور نقصان دونوں شریک فریقین میں تقسیم ہوتے ہیں۔

  • سرمایہ کار اور محنت کرنے والا برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

  • کسی ایک فریق پر مکمل نقصان کا بوجھ نہیں ہوتا۔

زکوٰۃ اور صدقات

اسلام میں زکوٰۃ، صدقات، اور خیرات کا باقاعدہ نظام موجود ہے، جو دولت کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بناتا ہے۔ اس نظام سے غربت میں واضح کمی آ سکتی ہے۔

پاکستان میں سودی نظام کی موجودگی

پاکستان کو “اسلامی جمہوریہ” کہا جاتا ہے، مگر افسوس کہ یہاں کا مالیاتی نظام اب تک سود پر قائم ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ

سال 2022 میں وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا کہ:

“پاکستان کا موجودہ سودی نظام غیر اسلامی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پانچ سال کے اندر اسے مکمل طور پر ختم کرے۔”

عملی اقدامات کی کمی

اگرچہ یہ فیصلہ ایک تاریخی قدم تھا، مگر اس پر عملدرآمد کی رفتار انتہائی سست ہے۔ اب بھی زیادہ تر بینک، کمپنیز، اور حکومتی ادارے سودی نظام پر چل رہے ہیں۔

حل اور آگے کا راستہ

عوامی شعور بیدار کرنا

سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ عوام کو سود کے نقصانات اور اسلامی معاشی ماڈل سے آگاہ کیا جائے۔ تعلیمی اداروں، میڈیا، اور خطبوں کے ذریعے شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔

اسلامی بینکاری کو فروغ دینا

پاکستان میں کئی اسلامی بینک کام کر رہے ہیں، جیسے Meezan Bank، Al Baraka Bank، Bank Islami وغیرہ۔ عوام کو چاہیے کہ سود سے بچنے کے لیے ان اداروں سے لین دین کو ترجیح دیں۔

حکومتی سطح پر اصلاحات

اسلامی معیشت کا نفاذ صرف بیانات سے ممکن نہیں۔ حکومت کو عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، جیسے:

  • سودی قرضوں پر پابندی

  • اسلامی مالیاتی اداروں کو سہولیات دینا

  • شرعی مشاورت کو مالیاتی پالیسی کا حصہ بنانا

نتیجہ

اسلام کا معاشی نظام عدل، انصاف اور مساوات پر مبنی ہے، جب کہ سودی نظام ان تمام اصولوں کے برخلاف ہے۔ آج کے سودی نظام نے انسان کو معاشی طور پر کمزور، اخلاقی طور پر گرا ہوا، اور روحانی طور پر خالی کر دیا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی، سود کے خلاف آواز بلند کریں اور ایک حقیقی اسلامی معیشت کے قیام کے لیے متحد ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے:

:شیئر کریں

Syed Abul Ala Maududi (RA)

Related Articles

Explore Syed Abul Ala Maududi’s profound writings and insightful analyses shaping contemporary Islamic thought.