آج کی مسلم دنیا ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ بڑھتی ہوئی عالمی تبدیلیوں، نظریاتی دباؤ اور جدید تقاضوں کے باعث مسلمان ریاستیں خود سے یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہیں: کیا ہمیں مغربی قانون اپنانا چاہیے یا اسلامی قانون کو مکمل طور پر نافذ کرنا چاہیے؟ یہ محض ایک نظریاتی بحث نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن سوال ہے جو مسلم اقوام کے مستقبل کی سمت طے کرے گا۔
تاریخ کا ایک مختصر پس منظر
نوآبادیاتی ورثہ اور قانونی نظام میں تبدیلی
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوآبادیاتی دور میں مغربی طاقتوں نے مسلم علاقوں پر قبضہ کرتے ہی سب سے پہلے وہاں کے عدالتی اور قانونی نظام کو تبدیل کیا۔ برصغیر، مصر، الجزائر اور دیگر خطوں میں مغربی قوانین نافذ کیے گئے۔
مزید برآں، اسلامی قوانین کو صرف عبادات اور خاندانی معاملات تک محدود کر دیا گیا۔
خلافت کے خاتمے کے بعد کا قانونی بحران
1924ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم دنیا ایک خالی پن کا شکار ہو گئی۔ ترکی نے مکمل سیکولر ازم اپنا لیا، جبکہ کئی دیگر ممالک نے جزوی اسلامی یا مکمل مغربی قانونی نظام اختیار کیا۔
یہی وہ موڑ تھا جہاں اسلامی قانون اپنی مرکزی حیثیت کھو بیٹھا۔
مغربی قانون: جدیدیت کے باوجود اخلاقی خلا
انصاف کی فراہمی اور حقوق کا تحفظ
بلاشبہ مغربی قانون نے کئی شعبوں میں ترقی کی۔ انسانی حقوق، خواتین کا تحفظ، آزادیِ اظہار اور قانونی برابری جیسے عناصر اس نظام کا حصہ بنے۔
اسی لیے کئی مسلم ممالک نے اسے ایک ماڈل کے طور پر اختیار کیا۔
مگر کیا یہ نظام مسلم شناخت سے ہم آہنگ ہے؟
اگرچہ مغربی قانون تکنیکی لحاظ سے ترقی یافتہ ہے، لیکن اس کی بنیاد سیکولر ازم پر ہے، جو مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی وکالت کرتا ہے۔
دوسری طرف، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو سیاست، معیشت، معاشرت اور اخلاقیات کو دین کے دائرے میں رکھتا ہے۔
لہٰذا، مغربی قانونی ڈھانچہ مسلم شناخت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی پیدا نہیں کر پاتا۔
اسلامی قانون: اصولی، جامع اور روحانی نظام
قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی
اسلامی قانون کی اساس قرآن، سنت، اجماع اور قیاس پر رکھی گئی ہے۔ یہ نظام صرف ظاہری انصاف نہیں بلکہ اخلاقی تربیت اور روحانی اصلاح بھی فراہم کرتا ہے۔
اسی لیے اسلامی فقہ صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ معاہدات، تجارت، سیاست، اور فوجداری قوانین کو بھی مکمل احاطہ میں لاتی ہے۔
مقاصدِ شریعت اور فلاحی معاشرہ
اسلامی قانون کا مرکزی ہدف مقاصدِ شریعت کی حفاظت ہے، جن میں دین، جان، عقل، نسل اور مال کا تحفظ شامل ہے۔
یہی مقاصد اسلامی قانون کو انسانی فلاح کا جامع ماڈل بناتے ہیں۔
مسلمان ریاستوں کے لیے موجودہ چیلنج
ہائبرڈ ماڈل کی پیچیدگیاں
بہت سی مسلمان ریاستیں جیسے پاکستان، مراکش اور مصر ایک ہائبرڈ ماڈل پر عمل پیرا ہیں جہاں اسلامی اور مغربی قوانین ساتھ چل رہے ہیں۔
اگرچہ یہ ماڈل وقتی طور پر ایک متوازن راستہ فراہم کرتا ہے، لیکن طویل مدت میں یہ تضاد اور ابہام پیدا کرتا ہے۔
ایک طرف حدود اور اسلامی سزائیں، دوسری طرف مغربی عدالتی اصول—یہ امتزاج ایک مضبوط قانونی شناخت تشکیل نہیں دے پاتا۔
مکمل شریعت کا نفاذ: خواب یا حقیقت؟
اسلامی قانون کا مکمل نفاذ ایک عظیم مقصد ہے، لیکن یہ عمل کئی چیلنجز سے دوچار ہے۔
مثال کے طور پر:
-
فقہی اختلافات
-
جدید قانونی تقاضے
-
بین الاقوامی معاہدے
-
انسانی حقوق کے عالمی معیارات
ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے عقلمند قیادت، دینی بصیرت اور عصرِ جدید کی فقہی مہارت درکار ہے۔
جدید دور میں اسلامی قانون کی تجدید کیسے ہو؟
اجتہاد کی بحالی
اسلامی تاریخ میں اجتہاد کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ عصر حاضر میں ہمیں ایسے ماہر علما اور فقہا کی ضرورت ہے جو جدید سائنسی، معاشی اور قانونی مسائل کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں حل کریں۔
مثلاً: ڈیجیٹل کرنسی، مصنوعی ذہانت، بایومیڈیکل تحقیق — ان تمام شعبوں میں اجتہاد ناگزیر ہو چکا ہے۔
ٹیکنالوجی اور اسلامی رہنمائی
مزید برآں، اسلامی قانون کو ڈیجیٹل دور سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
آن لائن لین دین، ڈیجیٹل شناخت، ورچوئل پراپرٹی جیسے مسائل میں اسلامی رہنمائی کی کمی واضح ہے۔
اسی لیے فقہی اداروں اور اسلامی سکالرز کو ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی متحرک ہونا ہوگا۔
عالمی سطح پر اسلامی قانون کی صورتِ حال
OIC اور دیگر اداروں کا کردار
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور اسلامی فقہ اکیڈمی جیسے ادارے اسلامی قوانین کو کوڈ کرنے، یکساں بنانے، اور ان کی ترویج کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اگر ان اداروں کو فعال بنایا جائے تو مسلم دنیا ایک ہم آہنگ قانونی بنیاد حاصل کر سکتی ہے۔
بین الاقوامی قانون سے مطابقت
اسلامی قانون کو بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے—بشرطیکہ اسلامی اصولوں سے سمجھوتا نہ کیا جائے۔
یہ عمل وقت طلب ضرور ہے، لیکن ایک مثبت حکمتِ عملی سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان: ایک تجربہ گاہ
آئینی حیثیت اور زمینی حقائق
پاکستان کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔
اگرچہ یہ اصولی موقف ہے، لیکن عملی طور پر کئی مغربی قوانین اب بھی رائج ہیں۔
لہٰذا، قانون سازی اور عدالتی عمل میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کا کردار
وفاقی شرعی عدالت اسلامی قوانین کی توثیق اور تجزیہ کا ایک اہم ادارہ ہے۔
تاہم، اس کے فیصلوں پر عملدرآمد میں سستی اور سیاسی مصلحتیں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
اسی لیے عوامی شعور اور سیاسی قیادت کا فعال کردار ناگزیر ہے۔
نتیجہ: فیصلہ کن سوال کا جواب
اسلامی قانون: ایک باوقار، اصولی راستہ
آخرکار، مسلمانوں کے لیے سب سے موزوں قانونی نظام وہی ہو سکتا ہے جو ان کی دینی، تہذیبی اور روحانی شناخت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
اسلامی قانون محض قانون نہیں، بلکہ ایک تربیتی نظام، ایک ضابطہ اخلاق اور فلاحی ماڈل ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کو سنوارتا ہے۔
مغربی قانون: تکنیکی فوائد مگر روحانی خلا
مغربی قانون کے کچھ پہلو مفید ضرور ہیں، لیکن وہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے کمزور ہے۔
لہٰذا، مسلمان ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی قانون کو جدید اصولوں کے مطابق جدید اجتہاد کے ذریعے ازسرنو تشکیل دیں۔





