عملی زندگی میں دین کا کردار
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو احاطہ کرتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام صرف عبادات، جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ، تک محدود ہے۔ کیا واقعی اسلام کا دائرہ صرف عبادات تک محدود ہے؟ یا یہ ہماری عملی زندگی میں بھی ایک واضح اور جامع رہنمائی فراہم کرتا ہے؟ اس مضمون میں ہم اسی اہم سوال کا جواب تلاش کریں گے۔
عبادات کا مفہوم اور اہمیت
اسلامی تعلیمات میں عبادات ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ نماز اللہ سے تعلق کا ذریعہ ہے، روزہ صبر و تقویٰ کی تربیت، زکوٰۃ معاشرتی انصاف کا ذریعہ، اور حج قربانی و اتحاد کا مظہر۔ یہ تمام عبادات بندے اور رب کے تعلق کو مضبوط کرتی ہیں، لیکن یہ صرف آغاز ہے نہ کہ انجام۔
عبادات کا مقصد
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“اور میں نے جنّ و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔” (الذاریات: 56)
عبادت کا مطلب صرف نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے اللہ کی رضا کے لیے اپنی پوری زندگی کو اس کے احکام کے مطابق گزارنا۔
عملی زندگی اور دین کا رشتہ
اسلام صرف مسجد تک محدود نہیں بلکہ بازار، دفتر، گھر، سیاست، تعلیم، معیشت اور معاشرت، ہر شعبے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
کاروبار میں دیانت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“سچا اور امانت دار تاجر، قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔” (ترمذی)
یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ اسلام دیانت، سچائی، اور انصاف کو کاروباری معاملات میں بھی لازم قرار دیتا ہے۔
خاندان اور رشتوں میں حسنِ سلوک
اسلام والدین، بیوی بچوں، پڑوسیوں اور معاشرے کے تمام افراد سے حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں بارہا والدین کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیا گیا ہے۔
“اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو…” (البقرہ: 83)
معاشرتی انصاف اور رواداری
اسلام ہمیں صرف عبادت کا درس نہیں دیتا بلکہ عدل و انصاف، مساوات، اور رواداری کو بھی زندگی کا حصہ بناتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے:
“اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے، تو عمرؓ سے اس کا حساب لیا جائے گا۔”
عبادات اور عمل کا تعلق
اسلام میں عبادات اور عملی زندگی ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔
نماز اور تقویٰ
نماز کا مقصد صرف چند رکعتیں ادا کرنا نہیں، بلکہ دل کو پاک کرنا اور زندگی میں تقویٰ لانا ہے۔
“بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔” (العنکبوت: 45)
اگر نماز کے باوجود جھوٹ، دھوکہ، ظلم اور ناانصافی کا ارتکاب ہو رہا ہو، تو یہ غور و فکر کا مقام ہے۔
مولانا مودودیؒ کا نقطۂ نظر
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس تصور کی خوب وضاحت کی ہے کہ دین صرف چند رسوم کا نام نہیں بلکہ ایک عملی نظام ہے۔
دین ایک مکمل نظام
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
“اسلام کوئی خانقاہی مذہب نہیں جو صرف ذکر و فکر اور چلہ کشی کے لیے ہو، بلکہ یہ دنیا کو خدائی ہدایت پر قائم کرنے کا نظام ہے۔”
ان کے نزدیک دین کا مطلب ہے “اطاعت”، اور یہ اطاعت صرف نماز اور روزے تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کے احکام کی پیروی ہے۔
جدید دور میں دین کا عملی اطلاق
آج کے دور میں جہاں سائنسی ترقی، صنعتی نظام، اور جدید طرزِ زندگی نے انسان کو سہولیات دی ہیں، وہیں بے راہ روی، مادہ پرستی، اور اخلاقی بحران نے بھی جنم لیا ہے۔
دین کی رہنمائی کیسے مددگار ہو سکتی ہے؟
-
تعلیم میں اخلاص: علم کا مقصد دنیاوی فوائد نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت ہونا چاہیے۔
-
میڈیا میں سچائی: جھوٹے پراپیگنڈے کے بجائے حقائق پر مبنی خبروں کی ترویج ہونی چاہیے۔
-
معاشرت میں برداشت: فرقہ واریت، لسانیت اور قوم پرستی کے بجائے انسانیت اور اخلاقیات کو فوقیت دینی چاہیے۔
دین و دنیا کی تفریق – ایک مغالطہ
کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ دین الگ چیز ہے اور دنیا الگ۔ لیکن اسلام نے کبھی دین و دنیا کی علیحدگی کا تصور نہیں دیا۔
ایک حدیث کی روشنی میں
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔” (بخاری)
یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ اسلام ذمہ داری، نظم و ضبط، اور عدل و انصاف کی تلقین کرتا ہے، چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی ذمہ داری۔
اسلام کے معاشی اصول
اسلام نے سود سے پاک معیشت، زکوٰۃ کا نظام، وراثت کے اصول، اور محنت کی کمائی کو حلال قرار دیا۔
زکوٰۃ کا کردار
زکوٰۃ صرف عبادت نہیں بلکہ ایک عملی نظام ہے جو معاشرتی انصاف، غربت کے خاتمے، اور مالی مساوات کا ذریعہ ہے۔
نتیجہ – دین صرف عبادت نہیں، مکمل طرزِ زندگی ہے
اسلام کا مقصد صرف انسان کو چند ظاہری اعمال تک محدود کرنا نہیں بلکہ اسے ایک بااخلاق، ذمہ دار، اور نفع بخش انسان بنانا ہے۔ اگر عبادات انسان کو بہتر انسان نہ بنائیں، تو ان عبادات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
خلاصہ
-
اسلام صرف عبادات کا نام نہیں، بلکہ ہر شعبۂ زندگی میں ہدایت فراہم کرتا ہے۔
-
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج انسان کو عملی طور پر صالح بنانے کے ذرائع ہیں۔
-
دین اور دنیا کی تفریق اسلام میں نہیں پائی جاتی۔
-
مولانا مودودیؒ جیسے مفکرین نے دین کو ایک ہمہ جہت نظام کے طور پر پیش کیا۔
-
عملی زندگی میں دین کا نفاذ، فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔
Modern Applications of Islamic Economics
آخر میں ایک سوال
کیا ہم اپنی زندگی کو واقعی اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا ہم نے دین کو صرف عبادات تک محدود کر دیا ہے؟