Unlock the timeless wisdom of Syed Abul Ala Maududi's, now powered by cutting-edge AI.

فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام کی جدوجہد – مولانا مودودیؒ کی فکر

فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام کی جدوجہد

اسلام ایک ایسا ضابطۂ حیات ہے جو انسانی فطرت، اخلاق اور سماجی اقدار کی حفاظت کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد طہارت، حیا اور شرم پر رکھی گئی ہے۔ یہی اقدار فحاشی و عریانی کی مکمل نفی کرتی ہیں۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس موضوع پر نہ صرف تفصیل سے قلم اٹھایا بلکہ اپنی تحریروں اور خطبات کے ذریعے مسلم معاشروں کو ان فتنوں سے آگاہ بھی کیا۔ ان کی فکر آج بھی اسی شدت سے متعلقہ ہے۔

فحاشی و عریانی: مغرب سے درآمد شدہ تہذیب

مولانا مودودیؒ کے نزدیک فحاشی و عریانی کوئی انفرادی مسئلہ نہیں۔ بلکہ یہ ایک عالمی تہذیبی یلغار ہے جو مغرب سے مسلم دنیا میں داخل ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، مغربی تہذیب نے “عورت کی آزادی” کے نام پر اس کے تقدس کو پامال کیا۔

اس تہذیب کے اثرات درج ذیل شعبوں میں نمایاں ہیں:

  • اشتہارات اور فیشن

  • فلم اور ڈرامہ

  • سوشل میڈیا و انٹرنیٹ

مولانا مودودیؒ کا تجزیہ:

“یہ تہذیب دراصل انسان کو حیوان بناتی ہے، جس میں شرم و حیا کی کوئی قدر باقی نہیں رہتی۔”

اسلام اس کے برخلاف عورت کو عزت، تحفظ اور وقار دیتا ہے۔ مولانا کے نزدیک، اسلام کا پردے کا نظام معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں فحاشی کی مذمت

مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ فحاشی اور عریانی صرف اخلاقی نہیں، بلکہ روحانی تباہی کا سبب بھی ہیں۔

مثال کے طور پر:

سورۃ النور کی آیت:
“قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ…”
(کہہ دو مومن مردوں سے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں)

مولانا نے اس آیت کی تفسیر میں واضح کیا کہ اسلامی معاشرہ بے حیائی کے لیے جگہ نہیں چھوڑتا۔

میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کا کردار

آج کی دنیا میں میڈیا نے فحاشی کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے پہلے ہی اس خطرے کی نشاندہی کی تھی۔

وہ کہتے ہیں:

“اگر مسلم معاشرے نے مغرب کی اندھی تقلید جاری رکھی، تو وہی اخلاقی بربادی ہو گی جو مغرب کو بھگتنا پڑی ہے۔”

ان کے مطابق، درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:

  • اسلامی میڈیا کا فروغ

  • تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت

  • خاندانی نظام کی مضبوطی

اسلامی حکومت کی ذمہ داری

فحاشی و عریانی کا مقابلہ صرف انفرادی سطح پر ممکن نہیں۔ مولانا مودودیؒ نے واضح کیا کہ ایک اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ:

  • فحاشی کی روک تھام کے لیے قوانین بنائے

  • نصاب تعلیم کو شریعت کے مطابق مرتب کرے

  • ذرائع ابلاغ پر دینی اقدار کی ترویج کرے

وہ فرماتے ہیں:

“اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف فحاشی و عریانی کی روک تھام کرے بلکہ صالح اقدار کو فروغ دے۔”

مولانا مودودیؒ کی تحریریں اور عملی جدوجہد

مولانا کی تحریریں اس جدوجہد کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی مشہور کتب جیسے:

  • پردہ

  • اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی

  • تفہیم القرآن

ان تمام میں فحاشی و عریانی کے خلاف اسلامی مؤقف کو علمی، سائنسی اور دینی دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

معاشرتی بیداری اور اصلاحی تحریک

مولانا نے صرف لکھنے پر اکتفا نہیں کیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے عوامی بیداری کی تحریک بھی چلائی۔

ان کی عملی رہنمائی میں درج ذیل پہلو شامل ہیں:

  1. بچوں کی تربیت میں حیا کو بنیادی حیثیت دینا

  2. تعلیمی اداروں میں اسلامی ماحول قائم کرنا

  3. میڈیا پر اخلاقی معیار نافذ کرنا

آج کے دور میں مولانا کی فکر کی اہمیت

آج کا دور ڈیجیٹل میڈیا، OTT پلیٹ فارمز اور سوشل نیٹ ورکس کا ہے۔ فحاشی اب ہر گھر میں آسانی سے داخل ہو رہی ہے۔ ایسے میں مولانا کی فکر مزید اہمیت اختیار کر چکی ہے۔

ہم کیا کر سکتے ہیں؟

  • اسلامی تعلیمات پر عمل کریں

  • حیا و شرم کو اپنی شخصیت میں شامل کریں

  • مولانا مودودیؒ کی تحریروں کو عام کریں

  • خاندان اور معاشرے کو اصلاح کی طرف لے کر آئیں

نتیجہ

مولانا مودودیؒ نے فحاشی و عریانی کے خلاف جو فکری و عملی جدوجہد کی، وہ آج بھی امت مسلمہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ اسلام کا پیغام واضح ہے: انسان کو حیوانی سطح سے اٹھا کر اعلیٰ اخلاقی بلندی پر پہنچانا۔

ہمیں مولانا کی فکر سے سبق لینا ہو گا اور اسلامی اقدار کو اپنے انفرادی، خاندانی اور اجتماعی نظام میں رائج کرنا ہو گا۔ یہی ایک صالح معاشرے کی ضمانت ہے۔

ولانا مودودیؒ کی اسلامی تعلیمات
اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ بر فحاشی

:شیئر کریں

Syed Abul Ala Maududi (RA)

Related Articles

Explore Syed Abul Ala Maududi’s profound writings and insightful analyses shaping contemporary Islamic thought.