نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے اور ہر مسلمان پر فرض ہے۔ قرآن و سنت میں اسے دین کا ستون کہا گیا ہے۔ اگر یہ ستون کمزور پڑ جائے تو ایمان کی عمارت ڈولنے لگتی ہے۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تحریروں میں بارہا نماز کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کے نزدیک ترکِ نماز صرف ایک فرض کو چھوڑنا نہیں بلکہ دین سے غفلت اور بغاوت ہے۔ چنانچہ وہ اسے سب سے بڑا نقصان قرار دیتے ہیں۔
نماز کی اہمیت اسلام میں
اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نماز ہے جو دن میں پانچ بار انسان کو اللہ کے حضور حاضر کرتی ہے۔
یہ عبادت نہ صرف اللہ سے تعلق کو مضبوط کرتی ہے بلکہ انسان کی زندگی میں نظم، پاکیزگی اور تقویٰ بھی پیدا کرتی ہے۔ مزید برآں، مولانا مودودیؒ کے مطابق نماز بندے کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ دنیا میں آزاد نہیں بلکہ اللہ کا بندہ ہے۔
مولانا مودودیؒ کا نقطۂ نظر
مولانا مودودیؒ کے مطابق نماز چھوڑنا ایمان کے بنیادی حصے کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ یہ رویہ بغاوت اور دین سے غفلت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نماز انسان کو اللہ کی غلامی سے جوڑتی ہے۔ دوسری طرف، جب یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو انسان اپنی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔
نماز ترک کرنے کے روحانی نقصانات
1. اللہ سے تعلق کا کمزور ہونا
نماز اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ ترکِ نماز اس تعلق کو کمزور کر دیتا ہے اور دل کو سخت بنا دیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے۔
2. ایمان میں کمزوری
ایمان کی مضبوطی نماز سے ہے۔ جو شخص نماز چھوڑتا ہے وہ رفتہ رفتہ ایمان میں کمزور پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ حدیث کے مطابق نماز اور کفر کے درمیان حدِ فاصل نماز ہے۔
3. گناہوں کی طرف مائل ہونا
نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ لہٰذا، جب انسان نماز چھوڑ دے تو گناہوں کی رکاوٹ ٹوٹ جاتی ہے اور برے اعمال آسان ہو جاتے ہیں۔
نماز ترک کرنے کے اخلاقی نقصانات
1. ضبطِ نفس کی کمی
نماز وقت کی پابندی اور نظم سکھاتی ہے۔ اگر انسان اسے چھوڑ دے تو زندگی میں بے ترتیبی اور بے صبری بڑھ جاتی ہے۔
2. معاشرتی بے راہ روی
نماز دوسروں کے حقوق اور اخلاقی اقدار یاد دلاتی ہے۔ اسی طرح ترکِ نماز کے نتیجے میں رویے خراب ہو جاتے ہیں اور تعلقات میں سرد مہری آتی ہے۔
نماز ترک کرنے کے دنیاوی نقصانات
1. بے سکونی اور ذہنی دباؤ
نماز دل کو سکون اور راحت دیتی ہے۔ جب یہ عبادت ترک کی جائے تو دل میں بے چینی اور ذہن میں دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
2. برکتوں کا ختم ہونا
نماز اللہ کی رحمت اور برکت کا ذریعہ ہے۔ مزید برآں، ترکِ نماز کے بعد زندگی سے اطمینان اور برکت کم ہو جاتی ہے، چاہے محنت زیادہ بھی ہو۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں انجام
قرآن مجید میں فرمایا گیا:
“فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا” (مریم: 59)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نماز ضائع کرنے والے اپنی خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ دنیا میں بھی سکون سے محروم رہتے ہیں اور آخرت میں عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ کی عملی رہنمائی
1. نماز کی عادت ڈالنا
مولانا مودودیؒ کے نزدیک سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ نماز کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ یہ نہ صرف عبادت ہے بلکہ زندگی کی تنظیم بھی ہے۔
2. بچوں کی تربیت
ان کے مطابق والدین کو چاہیے کہ بچوں کو چھوٹی عمر سے نماز کی عادت ڈالیں۔ یوں بڑے ہو کر وہ نماز کو بوجھ کے بجائے سکون سمجھیں گے۔
3. اجتماعی ماحول
مزید برآں، مولانا مودودیؒ نے کہا کہ اگر پورا معاشرہ نماز کا پابند ہو تو جرائم اور بے راہ روی ختم ہو سکتی ہے۔
ترکِ نماز کے اخروی نتائج
قرآن کہتا ہے:
“مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ * قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ” (المدثر: 42-43)
ترجمہ: “تم دوزخ میں کیوں گئے؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔”
یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ ترکِ نماز آخرت میں سخت عذاب کا سبب ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اس غفلت سے بچنا چاہیے۔
نتیجہ
نماز ترک کرنے کے نقصانات صرف روحانی نہیں بلکہ اخلاقی اور دنیاوی بھی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی رہنمائی ہمیں بتاتی ہے کہ نماز چھوڑنے والا اپنی ذات اور معاشرے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے اور آخرت میں سخت حساب کا سامنا کرتا ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ نماز کو زندگی کا مرکز بنائے اور اسے کسی حال میں ترک نہ کرے۔