Unlock the timeless wisdom of Syed Abul Ala Maududi's, now powered by cutting-edge AI.

اسلام میں عدل و انصاف کی بنیادیں

اسلام میں عدل و انصاف کی بنیادیں

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اعتدال، امن اور انصاف کے اصولوں پر استوار کرتا ہے۔ دراصل عدل و انصاف نہ صرف اسلامی معاشرت کی بنیاد ہیں بلکہ قرآن و سنت نے انہیں ایمان اور تقویٰ کا لازمی تقاضا قرار دیا ہے۔ اسی لیے اس مضمون میں ہم اسلام میں عدل و انصاف کی بنیادوں، ان کی اہمیت اور عملی مظاہر کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

قرآن میں عدل و انصاف کا حکم

اللہ تعالیٰ کا حکم

قرآن مجید میں بارہا عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہو اور اللہ کے لیے گواہی دو اگرچہ وہ خود تمہارے خلاف یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو۔” (النساء: 135)

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ انصاف کبھی مصلحت یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انصاف کو ایمان کا لازمی حصہ قرار دیا۔

عدل اور تقویٰ کا تعلق

اسی طرح سورۃ المائدہ میں فرمایا گیا:
“عدل کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔” (المائدہ: 8)
یہاں صاف طور پر بتایا گیا کہ عدل و انصاف صرف قانونی یا سماجی ضرورت نہیں بلکہ یہ تقویٰ اور روحانیت کا حصہ ہے۔ چنانچہ جو شخص عدل سے کام لیتا ہے وہ دراصل اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔

عدل کی بنیاد: مساوات

رنگ، نسل اور قومیت سے بالاتر مساوات

اسلام میں عدل کا پہلا اصول مساوات ہے۔ سب انسان اللہ کے نزدیک برابر ہیں۔ کسی کو رنگ، نسل، زبان یا قومیت کی بنیاد پر فوقیت حاصل نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا:
“کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔”

اس فرمان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انصاف کا تقاضا مساوات ہے۔

قانون کی نظر میں برابری

اسی طرح اسلامی معاشرے میں حکمران اور عام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ ایک بار ایک عورت کو چوری کے جرم پر سزا دی گئی۔ بعض لوگوں نے سفارش کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔”

یہ مثال بتاتی ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہے، چاہے وہ کسی بلند مقام پر فائز کیوں نہ ہو۔

انصاف: حقوق العباد کی حفاظت

والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ انصاف

اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین، بیوی، بچے اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ انصاف کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی شخص گھر میں انصاف قائم نہیں کرتا تو معاشرے میں عدل قائم نہیں ہو سکتا۔

یتیموں اور کمزور طبقے کے حقوق

اسی کے ساتھ قرآن نے خاص طور پر یتیموں اور محروم طبقات کے ساتھ انصاف کا حکم دیا۔ سورۃ النساء میں فرمایا گیا:
“یتیموں کو ان کا مال دو اور پاک مال کے بدلے ناپاک مال نہ لو۔”

یہ آیت بتاتی ہے کہ انصاف صرف عدالتی فیصلوں کا نام نہیں بلکہ کمزور طبقات کی کفالت اور ان کے حقوق کی حفاظت بھی انصاف کا لازمی جز ہے۔

عدل و انصاف کا عملی نفاذ

خلفائے راشدین کی مثالیں

خلافتِ راشدہ عدل و انصاف کی بہترین مثال ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:
“اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو مجھے خوف ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے بارے میں سوال کرے گا۔”

یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام میں انصاف صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق بھی شامل ہیں۔

اسی طرح حضرت علیؓ ایک مقدمے میں یہودی کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ قاضی نے غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ اسلامی عدل کسی طاقتور یا عہدے دار کو رعایت نہیں دیتا۔

اسلامی عدالت کا نظام

اسلامی عدالتی نظام میں قاضی مکمل آزاد ہوتا ہے۔ اس پر حکمران یا طاقتور طبقے کا دباؤ نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ عدل کے قیام کے لیے گواہی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ جھوٹی گواہی کو سخت ترین گناہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ انصاف کے پورے نظام کو تباہ کر دیتی ہے۔

عدل و انصاف کے فوائد

معاشرتی امن و سکون

جہاں انصاف ہوتا ہے وہاں جرائم کم ہو جاتے ہیں۔ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔

اعتماد اور بھائی چارہ

مزید یہ کہ عدل و انصاف کی موجودگی میں عوام کو حکمرانوں اور اداروں پر اعتماد ہوتا ہے۔ اس سے بھائی چارہ اور تعاون کو فروغ ملتا ہے۔

دنیا و آخرت میں کامیابی

انصاف کرنے والا دنیا میں عزت پاتا ہے اور آخرت میں اللہ کی رضا کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“انصاف کرنے والے قیامت کے دن نور کے منبروں پر ہوں گے۔”

عدل کے برعکس ظلم کی مذمت

اسلام ظلم کو سب سے بڑا گناہ قرار دیتا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا:
“بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔” (آل عمران: 57)

ظلم کی مختلف شکلیں ہیں۔ دوسروں کے حقوق پامال کرنا ظلم ہے، لیکن اپنے نفس پر زیادتی کرنا بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ظلم کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں۔

جدید دور میں عدل و انصاف کی ضرورت

آج کے دور میں طاقتور طبقے اکثر کمزوروں کے حقوق دبا لیتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی اصولِ عدل کو اپنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ چاہے وہ معیشت ہو، سیاست یا معاشرت، انصاف کے بغیر کوئی نظام قائم نہیں رہ سکتا۔

اسلامی تعلیمات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ عدل قائم کیے بغیر نہ معاشرہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی انسان سکون حاصل کر سکتا ہے۔

نتیجہ

اسلام میں عدل و انصاف کی بنیادیں قرآن و سنت پر قائم ہیں۔ یہ اصول ہمیں سکھاتے ہیں کہ انسان خواہ حکمران ہو یا عام شہری، امیر ہو یا غریب، سب کے ساتھ برابری اور انصاف کیا جائے۔ خلفائے راشدین کے دور نے اس اصول کو عملی طور پر ثابت کیا۔

آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر مسلم معاشرے عدل و انصاف کو اپنی زندگی کا محور بنا لیں تو ناانصافی، بدعنوانی اور ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ بالآخر عدل و انصاف ہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلامی معاشرت کھڑی ہے۔

Explore more

:شیئر کریں

Syed Abul Ala Maududi (RA)

Related Articles

Explore Syed Abul Ala Maududi’s profound writings and insightful analyses shaping contemporary Islamic thought.