مولانا مودودی کے فکر کے اثرات اور مغربی مفکرین
مولانا مودودی( ۱۹۷۹ ء ۔۱۹۰۳ء) بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر ، مفسر ، مورخ ،متکلم، قائد اور مجدد تھے ۔ جنھوں نے دین اسلام کے احیائے نو کے لیے امت میں نئی روح پھونک کر فکر اسلامی کو پر اعتماد ،عمدہ اور مدلل اسلوب میں اجاگر کیا ۔ مغربی فکر وتہذیب سے مرعوبیت کے شکار نئی نسل اسلام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے وہ اسلام کوفرسودہ اور ازمنہ وسطیٰ کا مذہب سمجھتے تھے اور الحاد کو اپنا قبلہ منتخب کر چکے تھے اس مرعوبیت پر مولانا مودودی نے کاری ضرب لگادی ۔ آپ نے اپنی تحریروں سے نوجوانوںکو حیرت انگیز حد تک بدل کر رکھ دیا ہے۔ مغربی فکر و تہذیب اور الحاد وبغاوت کی قعرِ مذلت اور بحر ظلمات سے نکال کر سراپا اسلام کے شیدائی بنا دیا ہے۔مولانا مودودی نے جس دور میں علمی ، فکری اور تحقیقی کام شروع کیا وہ مغربی فکر و فلسفہ ار اشتراکیت کے غلبہ کا زمانہ تھااور ان ہی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ علمی و فکری افق پر صرف ان ہی کی پکار سے لوگ مرعوب ہورہے تھے ۔ ان کے بغیر لوگوں کو کوئی اور آواز متاثر نہیں کر رہی تھی ۔یہ مولانا مودودی ہی تھے جنھوں نے اسلام کو فعال ، متحرک اور مدلل بنایا اور اس کے غالب ہونے کا تصور دیا ۔ انھوں نے اسلامی فکر اور اس کے لازوال عقائد ،نظام معیشت و تجارت،نظام معاشرت و خاندان ،نظام تعلیم و تربیت ،نظام سیاست اورملکی و بین الاقوامی قوانین ، تحریک و دعوت اور سماجیات پر نادر کتابیں لکھ کر عصر حاضر میں اسلام کے توانا وجود کو منوایا ۔ انھوں نے نہ صرف مغربی فکر و تہذیب سے مرعوبیت کوختم کرنے میںبھی نہایت اہم رول ادا کیا بلکہ مغربی دانشوروں کے اعتراضات کی تردید بھی کی اور ان کا عقلی و منطقی دلائل سے زبر دست مقابلہ کیا ۔ نیز تورات (عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید) اور عیسائی ویہودی مصنفین کے حوالوں سے عیسائیت اور یہودیت کے فسادات اور تضادات بھی مبرہن کئے ہیں۔
مولانا مودودی ان چند اسلامی مفکرین میں سے ہیں جنھوں نے برطانوی استعمار کے مذموم مقاصد اور مغربی فکر و فلسفہ کا نہ صرف صحیح ادراک کیا بلکہ اس کے تدارک لئے فکری جہاد بھی کیا ۔ ان کی فکر ابتدا ہی سے دفاعی نہیں بلکہ اقدامی نوعیت کی تھی اور ان کے افکار میں مرعوبیت اور معذرت پسندانہ لہجہ کا شائبہ تک بھی نہیں تھا ۔انھوں نے اسلام کو اسی طرح پیش کیا جس طرح ماضی میں امام غزالیؒ ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی اللہ ؒجیسے مجددین نے پیش کیا ۔ مولانا کو اگر انہی کی صف میں شامل کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا ۔مولانا مودودی نے اسلام کا جامع ،مکمل اور واضح تصور پیش کیا اور اپنی شاہکار تحریروں کے ذریعہ فکر اسلامی کے مختلف گوشوں پر قابل فخر کام کیا ۔نیز جدید افکار و نظریات کا علمی اور تحقیقی انداز (Systematic) سے تنقیدی جائیزہ بھی لیا ۔انھوں نے جہاں مغربی فکر و تہذیب کا طلسم توڑا وہیں ان دانشوروں پربھی زبر دست فکری حملہ کیا جو اسلام اور اس کی تہذیب کو ماضی کا قصہ پارینہ اور فرسودہ تصور کرتے تھے ۔ مولانا موصوف بیسویں صدی کے ایک ایسے مفکر تھے جنھوں نے اسلام کونہایت پرزور اور مدلل انداز میں دنیائے انسانیت کے لیے متبادل قرار دیا اور اسلام کو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے قابل عمل ٹھہرایا ۔انھوں نے ان حا لات میں کا م کیا جب مغربی فکر و تہذب کا رعب لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھااور مسلمانوں کی کوئی تحریک نہیں تھی ، کوئی نظریہ اور تعلیمی نظام نہیں تھا ، فہم و بصیرت کا زویہ متعین نہیں تھا ،اور جو کچھ تھا وہ بھی زوال پزیر تھی غرض کہ مسلمان ہر معاملے میں یاس وقنوطیت اور روایت پسندی کے بھول بھلیوں کے شکار تھے اور مسلم معاشرہ ہر طرف بے یقینی کی دلدل میں اتر گیا تھا ۔انہی حالات میں مولا نا مودودی نے علمی سفر شروع کیا ۔ ولی نصر لکھتے ہیں کہ:
“اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام انسانی زندگی کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے اور قرآن پاک مکمل دستور العمل ہے۔ یہ ہرزمانے کے لیے کامیابی اور فلاح وبہبود کا ضامن ہے جو دنیائے انسانیت کے لیے ہمیشہ قابل تقلید رہے گا۔ سید مودودیؒ نے اس بحث کو مضبوط استدلال سے واضح کیا اور انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایک خاص اسلوب اور نہج میں ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیاہے۔ برصغیر میں اسلام ایک مکمل نظام زندگی کے طور پیش کرنے کا سہرا مولانا مودودیؒ کے سر ہی بندھتا ہے۔”
مولانا مودودی نے اسلامی فکرمیں دور حاضر سے ایسی ہم آہنگی پیدا کی کہ اب ہر خاص وعام اس بات پر متفق ہے کہ اسلام عصر حاضر کا دین ہے۔ انہوں نے اس بات کی خوب وضاحت کی کہ اسلام کیسے عصر حاضر سے مطابقت (Relevancy) رکھتا ہے اور اس میں مولانا مودودیؒ پوری طرح کامیاب بھی رہے۔ اس تعلق سے دور جدید کی ایک عظیم داعی مریم جمیلہ لکھتی ہیں:
“میری یہ رائے گہرے مطالعے اور غور و فکر سے بنی ہے کہ جس طرح آپ اپنی گراں قدر کتابوں اور کتابچوں میں اسے پیش فرما رہے ہیں ، وہ اسلام کی صحیح تر ین تعبیر و تشریح ہے۔ آپ نے اسلام کو وقت کی کسی عارضی و سطحی مصلحت سے مملو نہیں کیا ، نہ کسی اجنبی نظریے یا فلسفے کی اس میں آمیزش ہونے دی ہے۔ آپ نے اسلام کو جس طور سے اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے ، اس کی روشنی میں میرا تاثر ہے کہ اسلام واحد راہ ہدایت اور اعلیٰ و ارفع اسلوب حیات ہے۔”
مولانا مودودی کے طرز استدلال کو جرمن اسکالر پٹر ہاٹنگ نے ان الفاظ میں سراہا:
“مولانا مودودی نے بیسویں صدی میں دوررس اثرات مرتب کئے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اسلام اپنی خالص ترین اور انتہائی توانا شکل میں دور جدید کی زندگی پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوا اور معاصر زندگی کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔”
مولانا مودودی کے افکار اور علمی خدمات نے دنیائے اسلام میں ایک نئی فکری تحریک پیدا کی۔
مولانا مودودی بے شمار لوگوں کے لیے اسلام مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے اختیار کرنے کاذریعہ ثابت ہوئے ۔ انھوں نے کم و بیش ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور ایسی جاندار تحریریں چھوڑیںکہ نہ صرف عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیابلکہ خواص بھی ان کی فکر انگیزتحریروںسے مستفید ہوئے اور ہورہے ہیں۔رائے جکسن(Roy Jackson ( کے بقول آج مولانا مودودی کی فکر اور ان کی تحریروں کو نہ صرف عالم اسلام میں بلکہ مغربی دنیا میں بھی مستقل طورپڑھاجارہاہے اور اسلامی احیاء کے جدید عنوانات پر مسلسل ان کی تحریروں سے استفادہ کیا جارہا ہے ۔اسی بات پر ہوگ گارڑدارد ( Hugh Goddard) کو بھی اتفاق ہے ،وہ لکھتے ہیں:
“یعنی مولانا مودودی بیسویں صدی میں احیائے اسلام کے ایک عظیم قائد اور رہنماء تھے ۔انھوں نے اپنی فکر اور تحریروں سے پورے عالم اسلام پر حیرت انگیز اثر الا۔ “
ا س سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مغربی اہل علم کتنی گہرائی اور گیرائی سے فکر مودودی کا مطالعہ کررہے ہیںاور ساتھ ہی یہ بھی تجزیہ کرتے ہیںکہ اس فکر سے اب تک مشرق و مغرب پرکتنے اثرات مرتب ہوچکے ہیںاور یہ بھی کہ آنے والے زمانے میں اس فکر سے کیا اثرات پڑنے والے ہیں؟
نتیجہ
مولانا مودودی نے علمی و فکری، سیاسی، تعلیمی، اور سماجی دائروں میں دور رس اثرات مرتب کیے۔ انہوں نے اسلام کو زندگی کے ہر شعبے کے لیے قابل عمل ثابت کیا اور دکھایا کہ دور جدید کے مسائل کو اسلام ہی حل کر سکتا ہے۔ ان کی فکر آج بھی دنیا بھر میں اسلامی احیاء کے لیے مشعل راہ ہے۔