اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو رنگ، نسل، زبان اور قوم کی بنیاد پر کسی کو فوقیت نہیں دیتا۔ دورِ جدید میں قوم پرستی (Nationalism) ایک مقبول نظریہ بن چکا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس نظریے کی اجازت دیتا ہے؟ اور اگر نہیں، تو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ جیسے مفکرِ اسلام کا اس بارے میں کیا مؤقف تھا؟ اس مضمون میں ہم انہی نکات کا جائزہ لیں گے۔
قوم پرستی کا مفہوم
قوم پرستی دراصل ایک سیاسی و سماجی نظریہ ہے جس کے مطابق کسی مخصوص قوم، نسل یا زبان سے تعلق رکھنے والے افراد کو باقی اقوام پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اس نظریے میں قومی شناخت کو مذہبی، انسانی یا اخلاقی شناخت پر مقدم رکھا جاتا ہے۔
قوم پرستی کا اصل پیغام “میری قوم سب سے پہلے” ہوتا ہے، چاہے اس کے نتیجے میں دوسروں کے حقوق پامال ہوں یا انصاف کا خون ہو جائے۔
اسلام کا نظریہ انسانیت
اسلام کی بنیاد توحید، عدل اور انسانیت پر ہے۔ قرآن کہتا ہے:
“يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ”
(سورۃ الحجرات: 13)
یعنی اللہ نے انسانوں کو مختلف قبائل اور قوموں میں پہچان کے لیے پیدا کیا، نہ کہ ایک دوسرے پر برتری کے لیے۔ اسلام میں برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔
مولانا مودودیؒ کا پس منظر
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے عظیم مفکر، مفسر اور سیاسی رہنما تھے۔ انہوں نے برصغیر میں اسلام کے اجتماعی نظام کی تشکیل اور تشریح کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تحریروں میں اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
مولانا مودودیؒ اور قوم پرستی کا رد
مولانا مودودیؒ نے قوم پرستی کو ایک غیر اسلامی نظریہ قرار دیا۔ ان کے مطابق اسلام کی تعلیمات ایک عالمی اُخوّت پر مبنی ہیں جو انسانوں کو رنگ، نسل، زبان یا جغرافیے کی بنیاد پر نہیں بانٹتی۔
1. قوم پرستی اور جاہلیت
مودودیؒ کے نزدیک قوم پرستی جاہلیتِ جدیدہ کی ایک شکل ہے۔ انہوں نے فرمایا:
“قوم پرستی دراصل اس جاہلیت کا نیا روپ ہے جسے اسلام نے چودہ سو سال پہلے مٹا دیا تھا۔”
اسلام میں جو اخوت، مساوات اور وحدت کا تصور ہے، وہ قوم پرستی کی دیواروں کو گرا دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
“قوم پرستی، عصبیت، اور خاندانی فخر کو چھوڑ دو، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔”
2. قوم پرستی کا اسلام پر اثر
مودودیؒ نے قوم پرستی کو امتِ مسلمہ کے اتحاد کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، جب مسلمان قوموں میں بٹ جائیں گے تو:
-
اسلام کی عالمی دعوت محدود ہو جائے گی
-
مسلم دنیا کمزور ہو جائے گی
-
اسلام کی اصل روح یعنی “واحد اُمت” کا تصور ختم ہو جائے گا
3. قرآن کی تعلیمات کے خلاف
مولانا مودودیؒ نے متعدد مرتبہ اپنی تفاسیر میں واضح کیا کہ قوم پرستی قرآن کے پیغام کے خلاف ہے۔ ان کی کتاب “مسئلہ قومیت” میں انہوں نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ قرآن کی تعلیمات کسی مخصوص قوم یا نسل کو برتر نہیں مانتیں۔
اسلامی ریاست اور قوم پرستی
مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کا جو خاکہ پیش کیا، اس کی بنیاد عقیدہ، قانون اور اخلاقیات پر رکھی گئی، نہ کہ قوم، نسل یا زبان پر۔ ان کے مطابق اسلامی ریاست ایک ایسا نظام ہے جہاں:
-
حکمرانی اللہ کی ہو
-
قانون قرآن و سنت کا ہو
-
اور عدل و مساوات ہر شہری کو ملے، چاہے وہ کسی بھی قوم یا نسل سے تعلق رکھتا ہو
مذہب پر مبنی وحدت
مودودیؒ نے مذہب کی بنیاد پر وحدت کو اہمیت دی۔ ان کے مطابق، مسلمان ایک امت ہیں، ان کی شناخت اسلام ہے، نہ کہ قوم یا ملک۔ انہوں نے فرمایا:
“ہماری قوم اسلام ہے، ہماری ریاست اسلامی ریاست ہے، اور ہمارا قانون قرآن و سنت ہے۔”
جدید دور میں قوم پرستی کے نقصانات
مولانا مودودیؒ کے مؤقف کی روشنی میں آج ہم دنیا میں قوم پرستی کے جو نقصانات دیکھتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
1. امت مسلمہ کا بکھراؤ
قوم پرستی نے مسلمانوں کو جغرافیائی حدود میں بانٹ دیا ہے۔ ایک ہی دین کے ماننے والے لوگ مختلف قوموں، ملکوں اور مفادات میں تقسیم ہو چکے ہیں۔
2. جنگ و جدال
قوم پرستی کی بنیاد پر دنیا میں جنگیں اور فسادات ہوتے رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کی ایک بڑی وجہ قوم پرستی ہی تھی۔
3. مذہبی تعصب
جب قومی مفاد کو مذہبی تعلیمات پر فوقیت دی جاتی ہے تو دین کی اصل روح متاثر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کئی مسلم ممالک میں مذہب ثانوی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
قومیت کی محدود گنجائش
اگرچہ اسلام میں ثقافتی شناخت یا لسانی وابستگی کو مکمل طور پر رد نہیں کیا گیا، لیکن اسے دینی وحدت پر غالب نہیں آنے دیا جا سکتا۔ یعنی کوئی مسلمان پنجابی، پشتون، یا عرب ہو سکتا ہے، مگر اس کی اولین شناخت مسلمان ہونا ہے۔
مولانا مودودیؒ کی دعوت
مودودیؒ نے ہمیشہ مسلمانوں کو ایک عالمی امت کے طور پر دیکھنے کی دعوت دی۔ ان کے مطابق:
-
مسلمان ایک نظریے کے ماننے والے ہیں
-
ان کی زبانیں مختلف ہو سکتی ہیں، مگر ایمان ایک ہے
-
ان کی ریاستیں مختلف ہو سکتی ہیں، مگر قانون ایک ہے
نتیجہ
اسلام میں قوم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒ کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ قوم پرستی ایک غیر اسلامی نظریہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کا سبب بنتی ہے۔ ان کے مطابق، اسلام ایک عالمی دعوت اور نظام ہے، جو صرف ایمان، تقویٰ، اور عدل کی بنیاد پر انسانوں کو جوڑتا ہے۔
مولانا مودودیؒ کی یہ فکر آج بھی وقت کی ضرورت ہے، تاکہ امت مسلمہ رنگ، نسل، اور جغرافیے کے خول سے نکل کر ایک متحد اُمت بن سکے، جو دنیا میں عدل، امن، اور ہدایت کا علمبردار ہو۔
مولانا مودودیؒ کے تصورِ خلافت پر تفصیلی مضمون یہاں پڑھیں
مزید جاننے کے لیے اسلام کا تصورِ اخوت ملاحظہ کریں (اسلام ویب)





